Fasih Akmal

فصیح اکمل

فصیح اکمل کی غزل

    اس کی دیوار پہ منقوش ہے وہ حرف وفا

    اس کی دیوار پہ منقوش ہے وہ حرف وفا جس کی تعبیر کو خوابوں کا سہارا نہ ملا میری تنہائی سے اکتا کے ترا نام بھی کل اپنے مستقبل تاباں کی طرف لوٹ گیا جب خیالات مرا ساتھ نہیں دیتے ہیں دل میں در آتی ہے چپکے سے وہ مانوس صدا ایسے خوش رنگ سرابوں کا سہارا کب تک مسکراتا ہوں تو دیتی ہے تمنا ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے سامنے اس طرح سرخ رو ہوگی

    کسی کے سامنے اس طرح سرخ رو ہوگی نگاہ خون تمنا سے با وضو ہوگی بروز حشر کھڑے ہونگے منصفی کے لیے خدا ملا تو مقابل سے گفتگو ہوگی تمام عمر کے زخموں کا ہے حساب کتاب ہماری فرد عمل بھی لہو لہو ہوگی قبائے زیست جو ہے خارزار ہستی میں وہ کس کے سوزن تدبیر سے رفو ہوگی ہمیں پہ ختم ہیں جور و ...

    مزید پڑھیے

    مضطرب دل کی کہانی اور ہے

    مضطرب دل کی کہانی اور ہے کوئی لیکن اس کا ثانی اور ہے اس کی آنکھیں دیکھ کر ہم پر کھلا یہ شعور حکمرانی اور ہے یہ جو قاتل ہیں انہیں کچھ مت کہو اس ستم کا کوئی بانی اور ہے عمر بھر تم شاعری کرتے رہو زخم دل کی ترجمانی اور ہے حوصلہ ٹوٹے نہ راہ شوق میں غم کی ایسی میزبانی اور ہے مدعا ...

    مزید پڑھیے

    منور جسم و جاں ہونے لگے ہیں

    منور جسم و جاں ہونے لگے ہیں کہ ہم خود پر عیاں ہونے لگے ہیں بظاہر تو دکھائی دے رہے ہیں بباطن ہم دھواں ہونے لگے ہیں جنہیں تاریخ بھی لکھتے ڈرے گی وہ ہنگامے یہاں ہونے لگے ہیں بہت سے لوگ کیوں جانے اچانک طبیعت پر گراں ہونے لگے ہیں فضا میں مرتعش بھی بے اثر بھی ہم آواز اذاں ہونے لگے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیے حالات کے جوگی کا کب ٹوٹے شراپ

    دیکھیے حالات کے جوگی کا کب ٹوٹے شراپ شاید اب اس عہد میں اس سے نہ ہو میرا ملاپ صاحب امروز افسردہ مزاج و مشتعل گردش حالات کو پیمانۂ فردا سے ناپ سایۂ افکار میں کانٹے سہی چھاؤں تو ہو ذہن کی آغوش سے باہر نکلنا اب ہے پاپ دل سے ذوق جرم محنت کہہ رہا ہے بار بار آتش احساس کے شعلوں سے بھی ...

    مزید پڑھیے

    مدت سے وہ خوشبوئے حنا ہی نہیں آئی

    مدت سے وہ خوشبوئے حنا ہی نہیں آئی شاید ترے کوچے کی ہوا ہی نہیں آئی مقتل پہ ابھی تک جو تباہی نہیں آئی سرکار کی جانب سے گواہی نہیں آئی دنیا کا ہر اک کام سلیقے سے کیا ہے ہم لوگوں کو بس یاد خدا ہی نہیں آئی جس وقت کہ وہ ہاتھ چھڑانے پہ بضد تھا اس وقت کوئی یاد دعا ہی نہیں آئی لہجے سے نہ ...

    مزید پڑھیے

    کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے

    کتابوں سے نہ دانش کی فراوانی سے آیا ہے سلیقہ زندگی کا دل کی نادانی سے آیا ہے تم اپنے حسن کے جلووں سے کیوں شرمائے جاتے ہو یہ آئینہ مری آنکھوں کی حیرانی سے آیا ہے الجھنا خود سے رہ رہ کر نظر سے گفتگو کرنا یہ انداز سخن اس کو نگہبانی سے آیا ہے ندی ہے موج میں اپنی اسے اس کی خبر کیا ...

    مزید پڑھیے

    جڑوں سے سوکھتا تنہا شجر ہے

    جڑوں سے سوکھتا تنہا شجر ہے مرے اندر بھی اک پیاسا شجر ہے ہزاروں آندھیاں جھیلی ہیں اس نے زمیں تھامے ہوئے بوڑھا شجر ہے پجاری جل چڑھا کر جا رہے ہیں نگر میں دکھ کے سکھ داتا شجر ہے مسافر اور پرندے جانتے ہیں کہ ان کے واسطے کیا کیا شجر ہے جو ہو فرصت تو اس کے پاس بیٹھو قلندر ہے ولی بابا ...

    مزید پڑھیے

    یہ وہ سفر ہے جہاں خوں بہا ضروری ہے

    یہ وہ سفر ہے جہاں خوں بہا ضروری ہے وہی نہ دیکھنا جو دیکھنا ضروری ہے بدلتی سمتوں کی تاریخ لکھ رہا ہوں میں ہر ایک موڑ پہ اب حادثہ ضروری ہے نقوش چہروں کے الفاظ بنتے جاتے ہیں کچھ اور اس سے زیادہ بھی کیا ضروری ہے یہ سونے والے تجھے سنگسار کر دیں گے یہ کہہ کے دیکھ کبھی جاگنا ضروری ...

    مزید پڑھیے

    دے گیا لکھ کر وہ بس اتنا جدا ہوتے ہوئے

    دے گیا لکھ کر وہ بس اتنا جدا ہوتے ہوئے ہو گئے بے آسرا ہم آسرا ہوتے ہوئے کھڑکیاں مت کھول لیکن کوئی روزن وا تو کر گھٹ نہ جائے میرا دم تازہ ہوا ہوتے ہوئے وقت نے گردن اٹھانے کی نہ دی مہلت ہمیں اپنا چہرہ بھول بیٹھے آئینہ ہوتے ہوئے خود اسی کے عہد میں عزم وفاداری نہ تھا ورنہ کیوں مجھ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2