Farrukh Yar

فرخ یار

فرخ یار کی نظم

    دو تہوں والی سرگوشی

    سماعتیں پھول چن رہی ہیں کہ خاک میں لو کا استعارہ ہراس کی منزلوں سے ہو کر ہمارے سینوں میں موجزن ہو ہماری آنکھیں ہمارے حلقے نہ جانے کس دن سے منتظر ہیں کہ وہ بھی دیکھیں کوئی ستارہ کوئی ستارہ جو نیلگوں پانیوں کے اندر نشیب کو روشنی سے بھر دے سماعتیں پھول چن رہی ہیں کہ حبس ٹوٹے ہوا چلے ...

    مزید پڑھیے

    یوں بھی ہوتا ہے کہ اپنے آپ آواز دینا پڑتی ہے

    دنیا بے صفتی کی آنکھ سے دیکھ یہ تکوین، ،زمان زمینیں، مستی اور لگن کی لیلا اک بہلاوا ہے اس بہلاوے میں اک دستاویز ہے جس کا اول آخر پھٹا ہوا ہے دودھیا روشن شاہراہوں پر کتنے یگ تھے جن میں خاموشی کے لمبے لمبے سکتے ہیں بارش اور ماٹی کا ذکر نہیں پھر بھی ہم نے معنی اور امکان کی بے ترتیبی ...

    مزید پڑھیے

    ترے عدل کے ایوانوں میں

    ڈھل گئی رات تری یاد کے سناٹوں میں بجھ گئی چاند کے ہم راہ وہ دنیا جس کا عکس آنکھوں میں لیے میں نے تھکن باندھی تھی نیم گھائل ہیں وہ شفاف ارادے جن پر کتنی معصوم تمناؤں نے لبیک کہی جانے کس شہر کو آباد کیا ہے تو نے دھڑکنیں بھیگتی پلکوں سے بندھی جاتی ہیں زندگی عصر ہمہ گیر میں بے معنی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2