Farrukh Yar

فرخ یار

فرخ یار کی نظم

    معلوم کرو

    کیا اگلا موڑ وصال کا ہے کیا اگلا حکم دھمال کا ہے معلوم کرو معلوم کرو وہ منزل چوتھے کوس پہ ہے جس منزل پر انکار درون ذات الم احساس بد دور ہو جائے گا اور پارہ پارہ جذبوں کی یکجائی سے اقرار امر ہو جائے گا جب عمروں کے تخمینوں سے کچھ قدموں پر اک بھیڑ لگے گی سانسوں کی ان سانسوں کی جو چھن ...

    مزید پڑھیے

    عجلت میں پشیمانی کا تذکرہ

    ہم کہیں ساعت بے بال و پری کھول کے دم لیتے ہیں ریگ زاروں سے نکلتے ہیں روانی لے کر اور اتر جاتے ہیں گدرائے ہوئے پانی میں بس اسی پانی میں ہے اپنی ہوس اپنے چلن کا قصہ یہ چلن خواب گہ ہست سے ہوتا ہوا کاشانے تلک جاتا ہے جس کی درزوں سے دعا جھانکتی ہے اور خلقت ہے کہ غفلت بھرے پہروں میں ہوا ...

    مزید پڑھیے

    دن گزر جائے گا

    حد ادراک سے ماورا منزل خاک تک ایک آراستہ جھومتے جھامتے عصر سے لمحۂ چاک تک دن گزر جائے گا بس یونہی دن گزر جائے گا نیم معلوم صدیوں کے سینۂ اسرار کو دائرہ دائرہ کھولتے کھولتے اپنے چھبیس برسوں کا سونا ترے غم کی میزان پر تولتے تولتے دن گزر جائے گا بس یونہی دن گزر جائے گا کیش کی ...

    مزید پڑھیے

    ایاز چپ ہے

    ایاز چپ ہے صدائے محمود حرب تازہ کی تیز تر رو میں بہہ گئی ہے ایاز چپ ہے ایاز چپ ہے کہ اب اسیران شب بھی خوابیدہ عکس لے کر تھکی تھکی خواہشوں کے سینوں پہ سو گئے ہیں وہ دن کہ جس دن جلے ہوئے طاقچوں پہ حرفوں کی بے کفن لاش دفن ہوگی وہ دن کلینڈر کی سبز تہ سے سرک گیا ہے ایاز چپ ہے لٹی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے کھول تازہ ہوا میں رکھ

    یہ جو فصل فرقت عصر ہے اسے کاٹ بھی یہ جو دفتر غم زیست ہے اسے بند کر اسے بند کر کہ وہ بت فروش نہیں رہے جو اسیر تھے رخ دہر کے ترے روبرو ترے چار سو شب ہست و بود کی راہ میں ترے ہم قدم ترے آئنوں کی شکستگی کا بھرم لیے کوئی اور کب ہے مرے سوا کوئی اور کب تھا مرے بغیر مگر اے رہین دم الست مرے ...

    مزید پڑھیے

    خبر مفقود ہے لیکن

    خبر مفقود ہے لیکن لہو میں بھاگتی خواہش امیدوں کے ہرے ساحل پہ حیراں ہے اسے کشف سحر جو بھی ہوا سورج سے خالی ہے اسے جو راستے سونپے گئے تقسیم ہوتے زاویوں میں سانس لیتے ہیں کھلی آنکھوں میں روشن چاند تاروں کے چمکنے سے بہت پہلے غنیم وسعت داماں ہزاروں چاہ ڈھونڈھ لیتا ہے خبر مفقود ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو بس

    ہم تو بس پیشی بھگتانے آئے ہیں ہم نے کیا لینا دینا ہے رقص صبا سے تم سے اس میلے سے جس میلے میں دستاویز پر دستخطوں کی پہلی فصل بچھی تھی اور زمانہ دو فرسنگ کی نا ہموار مسافت پر حیران کھڑا تھا ہم نے کیا لینا دینا ہے چاند سے چاند کی بڑھیا اور اس کے چرخے سے اس آنسو سے جو ٹپکا تو ہجر ہماری ...

    مزید پڑھیے

    لکیریں

    اے طائر تمنا اک دوسرے کی خاطر کیسے رکے پڑے ہیں تو بھی تری زباں بھی میں بھی مرا قلم بھی واماندگی کی لو میں یہ کون سی زمیں ہے جس کی نمو سے میری سانسیں رکی ہوئی ہیں یہ کون سا فلک ہے جس کی تہوں میں شب کی بے گانگی دھری ہے!

    مزید پڑھیے

    روح عصر رواں

    وہ علم گر گئے جن کے سائے تلے عشق کی اولیں سطر لکھی گئی پھول بھیجے گئے دشمنوں کے لئے اب ملو بھی کہ اے روح عصر رواں رنگ جلنے لگے روپ ڈھلنے لگے دوسرے پہر میں تیرہویں ضرب پر کٹ گئے دن کے راجے کڑی دھوپ میں شاخ تا شاخ مرجھا گئیں رات کی رانیاں اب ملو بھی کہ اے روح عصر رواں آنسوؤں میں سجا ...

    مزید پڑھیے

    کشتگان خنجر تسلیم را

    سکینہ! جب کہانی ختم ہوگی خاک کی تاثیر بدلے گی زمیں شعلہ بہ شعلہ کھینچ لی جائے گی ان تاریک کونوں میں جنہیں روشن زمانے سطر مستحکم کے اندر فاصلوں میں رکھ گئے تھے سکینہ! جب بدن فرش ستم پر دو قدم چلنے لگے گا عصر بے ہنگام سے جیون نئی دنیاؤں کے رستے نکالے گا میان آب و گل کس کو خبر کیا کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2