فاروق نازکی کی نظم

    سنہری دروازے کے باہر

    لرزتے بدن رنگ کہرے میں لپٹے ہوئے ادھ مری روشنی کا کفن اوڑھ کر موت کی سر زمیں میں اجالوں پہ قربان ہونے سے پہلے بہت دیر تک اپنے احساس کی آنچ سہتے رہے شام نیم تاریک راہوں پہ ماتھا رگڑتی رہی کانپتی تھرتھراتی شب غم کے سانچے میں ڈھلنے سے پہلے بہت دیر تک سرد فانوس کے پاس ٹھہری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2