فاروق بخشی کے تمام مواد

15 غزل (Ghazal)

    تمام شہر میں اس جیسا خستہ حال نہ تھا

    تمام شہر میں اس جیسا خستہ حال نہ تھا مگر وہ شخص کہ پھر بھی کوئی ملال نہ تھا یہ اور بات میں اپنی انا میں قید رہا وگرنہ اس کا پگھلنا تو کچھ محال نہ تھا بچھڑ گیا ہے تو یہ کہہ کے دل کو بہلاؤں وجود اس کا مرے حق میں نیک فال نہ تھا سمجھ رہا تھا محافظ جسے میں برسوں سے مجھی کو قتل کرے گا یہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ خود اپنا دامن بڑھانے لگے

    وہ خود اپنا دامن بڑھانے لگے چلو آج آنسو ٹھکانے لگے ہمارا برا وقت جب ٹل گیا پھر احباب ملنے ملانے لگے تری برہمی میں بھی جان وفا نوازش کے انداز آنے لگے مداوائے غم کچھ تو کرنا ہی تھا مصیبت پڑی گنگنانے لگے مزا دے گیا یار دور فراق ہمیں تو یہ دن بھی سہانے لگے محبت سے توفیق اظہار ...

    مزید پڑھیے

    وہ نہ آئے گا یہاں وہ نہیں آنے والا

    وہ نہ آئے گا یہاں وہ نہیں آنے والا مجھ کو تنہائی کا احساس دلانے والا کیا خبر تھی کہ ترس جائے گا تعبیروں کو اپنی آنکھوں میں ترے خواب سجانے والا اپنی تدبیر کے انجام سے ناواقف ہے حال تقدیر کا اوروں کو بتانے والا میری رگ رگ میں لہو بن کے رواں ہو جیسے میرے سائے سے بھی دامن کو بچانے ...

    مزید پڑھیے

    بچھڑنا مجھ سے تو خوابوں میں سلسلہ رکھنا

    بچھڑنا مجھ سے تو خوابوں میں سلسلہ رکھنا دیار ذہن میں دل کا دیا جلا رکھنا پلٹ کے آئیں گے موسم تو تم کو لکھوں گا کتاب دل کا ورق تم ذرا کھلا رکھنا میں چاہتا ہوں وہ آنکھیں جو روز ملتی ہیں کبھی تو مجھ سے کہیں ہم پہ آسرا رکھنا بدن کی آگ سے جھلسے نہ جسم روحوں کا قریب آ کے بھی تم مجھ سے ...

    مزید پڑھیے

    خدا کرے کہ یہ مٹی بکھر بھی جائے اب

    خدا کرے کہ یہ مٹی بکھر بھی جائے اب چڑھا ہوا ہے جو دریا اتر بھی جائے اب یہ روز روز کا ملنا بچھڑنا کھلتا ہے وہ میری روح کے اندر اتر بھی جائے اب وہاں وہ پھول سا چہرہ ہے منتظر اس کا کہو یہ شاعر آوارہ گھر بھی جائے اب میں اپنے آپ کو کب تک یونہی سمیٹے پھروں چلے وہ آندھی کہ سب کچھ بکھر ...

    مزید پڑھیے

تمام

7 نظم (Nazm)

    شہر دوست

    وہ شہر دوست بھی رخصت ہوا کہ جس نے سدا ہمارے دل میں کھلائے تھے چاہتوں کے گلاب خمار باقی ہے اب تک ہماری آنکھوں میں حسین لمحوں کا جو اس کے دم سے روشن تھے تمہارے بعد بھی آئیں گے یوں تو سب موسم بہت ستائیں گے لیکن ہر ایک موقعہ پر جو ہوتے تم تو یہ کام اس طرح کرتے کریں گے یاد تمہیں ہم کئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی آؤ

    مرے بالوں میں چاندی کھل رہی ہے مرے لہجے میں میٹھا رس گھلا ہے تمہارا نام آتے ہی مگر اب بھی دل بے تاب ویسے ہی دھڑکتا ہے کبھی جیسے تمہارے قرب کے موسم مرے چھوٹے سے کمرے میں اسی صورت مہکتے تھے عجب کچھ رنگ بھرتے تھے وہ موسم سارے موسم آج بھی اس دل کے اک چھوٹے سے کونے میں اسی صورت مہکتے ...

    مزید پڑھیے

    شکایت

    یہ تم نے کیا لکھا میں نے تمہیں دل سے بھلا ڈالا تمہیں تو یاد ہوگا بچھڑتے وقت تم نے ہی کہا تھا اگر تم چاہتے ہو یہ تمہارے اور میرے درمیاں یہ رشتہ عمر بھر یونہی رہے قائم تو ان لفظوں سے یونہی دوستی رکھنا کبھی فرصت ملے تو آؤ اور دیکھو میں اب بھی لفظ لکھتا ہوں میں ان لفظوں میں جیتا اور ...

    مزید پڑھیے

    ذرا سی دیر میں

    ذرا سی دیر لگتی ہے ذرا سی دیر میں یوں سارا منظر ایک دم تبدیل ہوتا ہے بکھر جاتے ہیں سارے خواب جیسے تاش کے پتے کھنکتے قہقہے تبدیل ہو جاتے ہیں آہوں میں ذرا سی دیر میں یوں سارا منظر ایک دم تبدیل ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    وہ بستی یاد آتی ہے

    وہ بستی یاد آتی ہے وہ چہرے یاد آتے ہیں وہاں گزرا ہوا اک ایک پل یوں جگمگاتا ہے اندھیری رات میں اونچے کلس مندر کے جیسے جھلملاتے ہیں وہاں بستی کے اس کونے میں وہ چھوٹی سی اک مسجد کہ جس کے صحن میں مرے اجداد کی پیشانیوں کے ہیں نشاں اب تک اسی کے پاس تھوڑی دور پر بہتی ہوئی گنگا مجھے اب بھی ...

    مزید پڑھیے

تمام