فاروق انجم کی غزل

    نہ جانے کتنے لہجے اور کتنے رنگ بدلے گا

    نہ جانے کتنے لہجے اور کتنے رنگ بدلے گا وہ اپنے حق میں ہی سارے اصول جنگ بدلے گا خلا میں تیرتے مسکن رہائش کے لیے ہوں گے یہ مستقبل مرا تہذیب خشت و سنگ بدلے گا در و دیوار کیا جانیں کھلا پن آسمانوں کا کشادہ دل وہی ہوگا جو ذہن تنگ بدلے گا بڑھائے گا وہ اپنے قد کو بانسوں پر کھڑے ہو ...

    مزید پڑھیے

    جنگ میں جائے گا اب میرا ہی سر جان گیا

    جنگ میں جائے گا اب میرا ہی سر جان گیا اور ہوگا نہ کوئی سینہ سپر جان گیا مجھ شناور کو ڈبو سکتے نہیں دونوں حریف میں بھی طوفان کا دریا کا ہنر جان گیا اونچی پرواز کی ہمت بھی تو کر لے کرگس لاکھ شاہین کا انداز سفر جان گیا آج تلوار ہوئی جاتی ہیں شاخیں اس کی جنگ ہونی ہے ہواؤں سے شجر جان ...

    مزید پڑھیے

    جب بھی ملا وہ ٹوٹ کے ہم سے ملا تو ہے

    جب بھی ملا وہ ٹوٹ کے ہم سے ملا تو ہے ظاہر ہے اس خلوص میں کچھ مدعا تو ہے اس کو نیا مزاج نیا ذہن چاہیے بچہ زباں چلاتا نہیں سوچتا تو ہے کیا منصفی ہے آپ کی خود دیکھ لیجئے انصاف شہر شہر تماشا بنا تو ہے دھبے لہو کے ہم کو بتا دیں گے راستہ شاید کسی کے پاؤں میں کانٹا چبھا تو ہے منزل کی ...

    مزید پڑھیے

    شہر کی فصیلوں پر زخم جگمگائیں گے

    شہر کی فصیلوں پر زخم جگمگائیں گے یہ چراغ منزل ہیں راستہ بتائیں گے پیڑ ہم محبت کے دشت میں لگائیں گے بے مکاں پرندوں کو دھوپ سے بچائیں گے زہر جب بھی اگلو گے دوستی کے پردے میں پتھروں کے لہجے میں ہم بھی گنگنائیں‌ گے جنگلوں کی جھرنوں کی کاغذی یہ تصویریں گھر کے بند کمروں میں کب تلک ...

    مزید پڑھیے

    سبز موسم کی رفاقت اس کا کاروبار ہے

    سبز موسم کی رفاقت اس کا کاروبار ہے پیڑ کب سوکھے ہوئے پتوں کا حصے دار ہے پھر مہاجن بانٹ لیں گے اپنی ساری کھیتیاں قرض کی فصلوں پہ جینا کس قدر دشوار ہے احتیاط و خوف والے ڈوبتے ہیں بیشتر جن کو ہے خود پر بھروسہ وہ ندی کے پار ہے مطمئن بیٹھے ہو تم نے یہ بھی سوچا ہے کبھی جس کا سایہ سر پہ ...

    مزید پڑھیے

    اب دھوپ مقدر ہوئی چھپر نہ ملے گا

    اب دھوپ مقدر ہوئی چھپر نہ ملے گا ہم خانہ بدوشوں کو کہیں گھر نہ ملے گا آوارہ تمناؤں کو گر سمت نہ دو گے بھٹکی ہوئی امت کو پیمبر نہ ملے گا سورج ہی نظر آئے گا نیزے پہ ہمیشہ سچائی کے شانوں پہ کبھی سر نہ ملے گا الفاظ مسائل کے شراروں سے بھرے ہیں غزلوں میں مری حسن کا پیکر نہ ملے گا ہارو ...

    مزید پڑھیے

    پرندے کھیت میں اب تک پڑاؤ ڈالے ہیں

    پرندے کھیت میں اب تک پڑاؤ ڈالے ہیں شکاری آج تماشہ دکھانے والے ہیں ہوائیں تیز ہیں آندھی نے پر نکالے ہیں بہت اداس پتنگیں اڑانے والے ہیں کمند پھینک نہ دینا زمیں کی وسعت پر نئے جزیرے سمندر نے پھر اچھالے ہیں چلو کے دیکھ لیں غالبؔ کے گھر کی دیواریں نئی رتوں نے بیاباں میں ڈیرے ڈالے ...

    مزید پڑھیے

    تارے شمار کرتے ہیں رو رو کے رات بھر

    تارے شمار کرتے ہیں رو رو کے رات بھر خیرات حسن دیجئے ہم کو ذکات بھر دیکھو ہمارا صبر کہ ہم نے نہیں پئے آنسو ہمارے پاس پڑے تھے فرات بھر شرمندہ ہو رہی ہیں وفاداریاں اگر زنبیل اعتبار میں کچھ ممکنات بھر رحمت جو تیری بخش دے ہم کو تو بخش دے پلے میں اپنے کچھ بھی نہیں ہے نجات بھر وہ ...

    مزید پڑھیے

    میں معتبر ہوں عشق مرا معتبر نہیں

    میں معتبر ہوں عشق مرا معتبر نہیں آنکھوں میں اشک غم نہیں نیزے پہ سر نہیں کچھ نقش رہ گئے ہیں بزرگوں کی شان کے اب شہر آرزو میں کسی کا بھی گھر نہیں ہم راہ چاند کے تو ستاروں کا ہے ہجوم سورج کے ساتھ کوئی شریک سفر نہیں بدلی ہوئی فضا ہے غزل کے مکان کی چنگیز خاں کے شہر میں غالبؔ کا گھر ...

    مزید پڑھیے

    یاروں کو کیا ڈھونڈ رہے ہو وقت کی آنکھ مچولی میں

    یاروں کو کیا ڈھونڈ رہے ہو وقت کی آنکھ مچولی میں شہر میں وہ تو بٹے ہوئے ہیں اپنی اپنی ٹولی میں شاہوں جیسا کچھ بھی نہیں ہے گنبد طاق نہ محرابیں تاج محل کا عکس نہ ڈھونڈو میری شکستہ کھولی میں ڈھلتے ڈھلتے سورج نے بھی ہم پر یہ احسان کیا چاند ستارے ڈال دیے ہیں رات کی خالی جھولی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2