نہ جانے کتنے لہجے اور کتنے رنگ بدلے گا
نہ جانے کتنے لہجے اور کتنے رنگ بدلے گا وہ اپنے حق میں ہی سارے اصول جنگ بدلے گا خلا میں تیرتے مسکن رہائش کے لیے ہوں گے یہ مستقبل مرا تہذیب خشت و سنگ بدلے گا در و دیوار کیا جانیں کھلا پن آسمانوں کا کشادہ دل وہی ہوگا جو ذہن تنگ بدلے گا بڑھائے گا وہ اپنے قد کو بانسوں پر کھڑے ہو ...