Farhat Qadri

فرحت قادری

فرحت قادری کی غزل

    تھا پا شکستہ آنکھ مگر دیکھتی تو تھی

    تھا پا شکستہ آنکھ مگر دیکھتی تو تھی مانا وہ بے عمل تھا مگر آگہی تو تھی الزام نارسی سے مبرا نہیں تھی سیپ لیکن کسی کے شوق میں ڈوبی ہوئی تو تھی مانا وہ دشت شوق میں پیاسا ہی مر گیا اک جھیل جستجو کی پس تشنگی تو تھی احساس پر محیط تھے لفظوں کے دائرے لفظوں کے دائروں میں مگر زندگی تو ...

    مزید پڑھیے

    راز ابل پڑے آخر آسماں کے سینوں سے

    راز ابل پڑے آخر آسماں کے سینوں سے ربط اس زمیں کو ہے اور بھی زمینوں سے کون سا جہاں ہے یہ کیسے لوگ ہیں اس میں اٹھتا ہے دھواں ہر دم دل کے آبگینوں سے ہر بشر ہے فریادی ہر طرف اندھیرا ہے مہر و مہ نہیں نکلے شہر میں مہینوں سے اک طرف زبانوں پر دوستی کے نعرے ہیں اک طرف ٹپکتا ہے خون آستینوں ...

    مزید پڑھیے

    آئی خزاں چمن میں گئے دن بہار کے

    آئی خزاں چمن میں گئے دن بہار کے شرمندہ سب درخت ہیں کپڑے اتار کے میک اپ سے چھپ سکیں گی خراشیں نہ وقت کی آئینہ ساری باتیں کہے گا پکار کے انساں سمٹتا جاتا ہے خود اپنی ذات میں بندھن بھی کھلتے جاتے ہیں صدیوں کے پیار کے پھر کیا کرے گا رہ کے کوئی تیرے شہر میں راتیں ہی جب نصیب ہوں راتیں ...

    مزید پڑھیے

    جب ہر نظر ہو خود ہی تجلی نمائے غم

    جب ہر نظر ہو خود ہی تجلی نمائے غم پھر آدمی چھپائے تو کیسے چھپائے غم اس وقت تک ملی نہ مجھے لذت حیات جب تک رہا زمانے میں ناآشنائے غم میری نگاہ شوق ہی غم کا سبب نہیں ان کی نگاہ ناز بھی ہے رہنمائے غم سودائے عشق درد محبت جفائے دوست ہم نے خوشی کے واسطے کیا کیا اٹھائے غم شاید یہ ہے ...

    مزید پڑھیے

    وہ کھل کر مجھ سے ملتا بھی نہیں ہے

    وہ کھل کر مجھ سے ملتا بھی نہیں ہے مگر نفرت کا جذبہ بھی نہیں ہے یہاں کیوں بجلیاں منڈلا رہی ہیں یہاں تو ایک تنکا بھی نہیں ہے برہنہ سر میں صحرا میں کھڑا ہوں کوئی بادل کا ٹکڑا بھی نہیں ہے چلے آؤ مرے ویران دل تک ابھی اتنا اندھیرا بھی نہیں ہے سمندر پر ہے کیوں ہیبت سی طاری مسافر اتنا ...

    مزید پڑھیے

    راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے

    راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے سب نام و نسب والے بے نام و نسب نکلے تعمیر پسندی نے کچھ زیست پر اکسایا کچھ موت کے ساماں بھی جینے کا سب نکلے یہ نور کے سوداگر خود نور سے عاری ہیں گردوں پہ مہ و انجم تنویر طلب نکلے یہ دشت یہ صحرا سب ویران ہیں برسوں سے اس سمت بھی دیوانہ تکبیر بہ ...

    مزید پڑھیے

    جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب بیگانے ہیں

    جتنے لوگ نظر آتے ہیں سب کے سب بیگانے ہیں اور وہی ہیں دور نظر سے جو جانے پہچانے ہیں زنجیروں کا بوجھ لئے ہیں بے دیوار کے زنداں میں پھر بھی کچھ آواز نہیں ہے کیسے یہ دیوانے ہیں بچ بچ کر چلتے ہیں ہر دم شیشے کی دیواروں سے کون کہے دیوانہ ان کو یہ تو سب فرزانے ہیں خود ہی بجھا دیتے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    کوئی دھڑکن کوئی الجھن کوئی بندھن مانگے

    کوئی دھڑکن کوئی الجھن کوئی بندھن مانگے ہر نفس اپنی کہانی میں نیا پن مانگے دشت افکار میں ہم سے نئے موسم کا مزاج بجلیاں تنکوں کی شعلوں کا نشیمن مانگے رات بھر گلیوں میں یخ بستہ ہواؤں کی صدا کسی کھڑکی کی سلگتی ہوئی چلمن مانگے زہر سناٹے کا کب تک پئے صحرائے سکوت ریت کا ذرہ بھی آواز ...

    مزید پڑھیے

    شعور و فکر کی تجدید کا گماں تو ہوا

    شعور و فکر کی تجدید کا گماں تو ہوا چلو کہ فن کا افق کشت‌ زعفراں تو ہوا بلا سے لے اڑی مجھ کو شعاع نور سحر فصیل شب سے گزر کر میں بے کراں تو ہوا یہ کم نہیں ہے کہ میں ہوں خلاؤں کا ہم راز مرے وجود میں گم سارا آسماں تو ہوا یہ ٹھیک ہے کہ فنا ہو گیا وجود اس کا مگر وہ قطرہ سمندر کا رازداں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی صلیب کی صورت کبھی ہلالی تھا

    کبھی صلیب کی صورت کبھی ہلالی تھا مری نگاہ میں اک پیکر خیالی تھا ہماری آپ کی شاید کوئی مثال نہیں جو مر گیا ہے وہی آدمی مثالی تھا کئی پتنگ کی صورت خلا میں ڈوب گیا وہ جتنا تیز تھا اتنا ہی لاابالی تھا اڑا اور اڑ کے فضاؤں میں ہو گیا تحلیل بدن کے بوجھ سے اس کا وجود خالی تھا وہ توڑ ...

    مزید پڑھیے