فرحت پروین کی نظم

    سچ بتا

    اے خدا کیسے میں مانوں کہ مٹی سے بنی ہے ماں بھی خاک تو فانی ہے مٹ جاتی ہے اور لا فانی کو فانی میں کیسے مانوں سچ بتا کون چھپا ہے اس میں ظرف انسان میں وسعت یہ کہاں سے آئے وہی الفت وہی شفقت وہی پردہ پوشی یہ تو صفتیں ہیں تری میں تو حیران ہوں اک سادہ سی لڑکی کیوں کر ہفت افلاک کو چھو لیتی ...

    مزید پڑھیے

    تمہیں آزاد کرتی ہوں

    سنو کوئی عذر مت ڈھونڈو نہ ہی نظریں چراؤ تم مجھے معلوم ہے میں سب سمجھتی ہوں تمہارے عہد الفت سے تمہیں آزاد کرتی ہوں اب ایسا ہے کہ پتھر کا زمانہ پھر سے لوٹ آیا وہی قانون جنگل کا جبلت کا غلام انساں فراز عشق سے پاتال تک کا ہے سفر یعنی فراق و ہجر کے موسم ہوئے پارینہ قصے اب بہ کثرت ہیں ...

    مزید پڑھیے

    چوٹ لگتی ہے اگر

    کتنے ہی صاحب دل اہل نظر اہل قلم اک زمانے سے یوں ہی لکھتے چلے آئے ہیں وہی اک قصۂ دل دوز کہ جو صدیوں سے ہے رواں مفلس و زردار کے بیچ ایک اک حرف لکھا خون جگر سے لیکن کچھ نہیں بدلا بجا کہتے ہو کچھ نہ بدلے گا میں جو بھی لکھوں ہاں یہ سچ ہے میں اسے مانتی ہوں لیکن اے دوست سنو اتنا حق مجھ کو ...

    مزید پڑھیے