سچ بتا
اے خدا
کیسے میں مانوں کہ مٹی سے بنی ہے ماں بھی
خاک تو فانی ہے مٹ جاتی ہے
اور لا فانی کو فانی میں کیسے مانوں
سچ بتا کون چھپا ہے اس میں
ظرف انسان میں وسعت یہ کہاں سے آئے
وہی الفت وہی شفقت وہی پردہ پوشی
یہ تو صفتیں ہیں تری
میں تو حیران ہوں اک سادہ سی لڑکی کیوں کر
ہفت افلاک کو چھو لیتی ہے ماں بنتے ہی
وہ جو اک نور نہاں صبح ازل تو نے کیا تھا اس میں
کرب تخلیق جگاتا ہے جسے
وہ پھر درد کی آخری حد کو چھو کر
ہر سو وہ نور بکھر جاتا ہے
نور ہی نور سے ہر انگ رچا ہوتا ہے
خاک کا خول فقط دھوکہ ہے
وہ تو سیال محبت ہے جو گردش میں ہے
درد اور سوز بسے ہوتے ہیں اک اک نس میں
گوشت اور پوست فقط پردہ ہے
ماں تو تمثیل ہے جنت کی تری
وہی وسعت وہی ٹھنڈک
اور وہی دودھ کی شیریں نہریں
ماں تو تفسیر ہے الفت کی تری
اپنی مخلوق سے حد اپنی محبت کی جتانے کے لئے
ماں کی ممتا کو ہی پیمانہ بنایا تو نے
سچ بتا کون چھپا ہے اس میں
سچ بتا بھید یہ کیوں تو نے چھپا رکھا ہے