Farhat Abbas Shah

فرحت عباس شاہ

فرحت عباس شاہ کی غزل

    یہ جو زندگی ہے یہ کون ہے

    یہ جو زندگی ہے یہ کون ہے یہ جو بے بسی ہے یہ کون ہے یہ تمہارے لمس کو کیا ہوا یہ جو بے حسی ہے یہ کون ہے وہ جو میرے جیسا تھا کون تھا یہ جو آپ سی ہے یہ کون ہے مرے چار سو مرے چار سو یہ جو بیکلی ہے یہ کون ہے مرے انگ انگ میں بس گئی یہ جو شاعری ہے یہ کون ہے وہ جو تیرگی تھی وہ کون تھی یہ جو ...

    مزید پڑھیے

    پھول کی سکھ کی صبا کی زندگی

    پھول کی سکھ کی صبا کی زندگی مختصر ہے کیوں وفا کی زندگی کس نے دیکھا ہے خدا کی موت کو کس نے دیکھی ہے خدا کی زندگی ہاتھ پاؤں مارنا بے کار ہے جی رہے ہیں ہم خلا کی زندگی بارہا بھی موت سے ہے سامنا آزما لی بارہا کی زندگی درد سہنے کا الگ انداز ہے جی رہے ہیں ہم ادا کی زندگی چاہے جنگل ...

    مزید پڑھیے

    ہجر کی رات چھوڑ جاتی ہے

    ہجر کی رات چھوڑ جاتی ہے نت نئی بات چھوڑ جاتی ہے عشق چلتا ہے تا ابد لیکن زندگی ساتھ چھوڑ جاتی ہے دل بیابانی ساتھ رکھتا ہے آنکھ برسات چھوڑ جاتی ہے چاہ کی اک خصوصیت ہے کہ یہ مستقل مات چھوڑ جاتی ہے مرحلے اس طرح کے بھی ہیں کہ جب ذات کو ذات چھوڑ جاتی ہے ہجر کا کوئی نا کوئی پہلو ہر ...

    مزید پڑھیے

    تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد

    تو نے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد اتنے چپ چاپ کہ رستے بھی رہیں گے لا علم چھوڑ جائیں گے کسی روز نگر شام کے بعد میں نے ایسے ہی گنہ تیری جدائی میں کئے جیسے طوفاں میں کوئی چھوڑ دے گھر شام کے بعد شام سے پہلے وہ مست اپنی اڑانوں میں رہا جس کے ...

    مزید پڑھیے

    گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا

    گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا جا تجھے آج سے ہم نے اپنے خدا کے حوالے کیا ایک مدت ہوئی ہم نے دنیا کی ہر ایک ضد چھوڑ دی ایک مدت ہوئی ہم نے دل کو وفا کے حوالے کیا اس طرح ہم نے تیری محبت زمانے کے ہاتھوں میں دی جس طرح گل نے خوشبو کو باد صبا کے حوالے کیا بے بسی سی عجب زندگی ...

    مزید پڑھیے

    دل میں اک شام سی اتارتی ہے

    دل میں اک شام سی اتارتی ہے خامشی اب مجھے پکارتی ہے کیسے ویران ساحلوں کی ہوا ریت پر زندگی گزارتی ہے تجھ سے ہم دور رہ نہیں سکتے کوئی بے چینی ہم کو مارتی ہے کھیلتی ہے مرے دکھوں کے ساتھ زندگی کس قدر شرارتی ہے ہے محبت تو بس محبت ہے جیت جاتی ہے اب یا ہارتی ہے روز اک نقش کو ابھارتی ...

    مزید پڑھیے

    تو اپنے ہونے کا ہر اک نشاں سنبھال کے مل

    تو اپنے ہونے کا ہر اک نشاں سنبھال کے مل یقیں سنبھال کے مل اور گماں سنبھال کے مل ہم اپنے بارے کبھی مشتعل نہیں ہوتے فقیر لوگ ہیں ہم سے زباں سنبھال کے مل وجود واہمہ ویرانیوں میں گھومتا ہے یہ بے کراں ہے تو پھر بے کراں سنبھال کے مل یہ مرحلے ہیں عجب اس لیے سمندر سے ہوا کو تھام کے مل ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2