فرح رضوی کے تمام مواد

11 غزل (Ghazal)

    پھر سے درپیش سفر کا قصہ

    پھر سے درپیش سفر کا قصہ ایک ٹوٹے ہوئے گھر کا قصہ ہم نے تعویذ کی صورت باندھا دل سے نکلے ہوئے ڈر کا قصہ گوشۂ چشم کا جلتے رہنا خشک ہوتے ہوئے تر کا قصہ خیر نے بانجھ زمینوں پہ لکھا لہلہاتے ہوئے شر کا قصہ پھیلتے پھیلتے کیسا پھیلا بے گھری تیری خبر کا قصہ بیج کو خاک نمو تو بخشے کھلتا ...

    مزید پڑھیے

    روگ جی جان کو لگایا ہوا

    روگ جی جان کو لگایا ہوا زنگ اوسان کو لگایا ہوا ایک اٹکا ہوا ہے پنجرے میں ایک پر دھیان کو لگایا ہوا خواب پتلی کے مرتبان میں جوں قفل سامان کو لگایا ہوا چکھ یہ مہکا ہوا قوام خیال شام کے پان کو لگایا ہوا آنکھ رکھی ہوئی ہے آہٹ پر راستہ کان کو لگایا ہوا خستگی سے گڑھا ہوا پیوند دل ...

    مزید پڑھیے

    حسرت کے داغ دست طلب سے نہیں دھلے

    حسرت کے داغ دست طلب سے نہیں دھلے بھاری تھے خواب آنکھ سے پورے نہیں تلے چکر بندھا تھا پاؤں میں قسمت کے پھیر کا گرد سفر کے بند ابھی تک نہیں دھلے اشکوں کے ذائقے میں نمک رہ گیا ہے کم رنج و ملال ٹھیک طرح سے نہیں گھلے سوئے رہیں ہیں محل تمنا ہزار سال شہزادیوں کے بخت جبھی تو نہیں ...

    مزید پڑھیے

    دل واہموں کے خواب کے پیچھے نہیں گیا

    دل واہموں کے خواب کے پیچھے نہیں گیا سیراب تھا سراب کے پیچھے نہیں گیا بے چہرگی عزیز مگر خال و خد کا غم داغ جگر نقاب کے پیچھے نہیں گیا رد و قبول میں بھی قناعت پسند تھا حسن طلب جواب کے پیچھے نہیں گیا عریاں ہے بارگاہ تماشا میں سر بہ سر شوق جنوں حجاب کے پیچھے نہیں گیا اس بار اختیار ...

    مزید پڑھیے

    دل کو آزار لگا دیتی ہے

    دل کو آزار لگا دیتی ہے ابتری پار لگا دیتی ہے چاند تو ایک ہی ہوتا ہے قلق بے کلی چار لگا دیتی ہے ہم وہ تصویر خموشی ہیں جسے خود پہ دیوار لگا دیتی ہے حسرت شوق کی چیونٹی دل میں غم کا انبار لگا دیتی ہے زندگی تیرے طمانچوں سے حذر روز دو چار لگا دیتی ہے

    مزید پڑھیے

تمام