فیض کی غزل

    چاہتوں کو نت نئے انداز سے دیکھا کرو

    چاہتوں کو نت نئے انداز سے دیکھا کرو وصل کی راحت میں فرقت کا سماں لکھا کرو کیا پتہ ان کی بھی لگ جائے کوئی قیمت کہیں سنگریزوں کو بھی ہیروں کی طرح پرکھا کرو ذات کے صحرا میں کر پاؤ گے کیا اپنی تلاش عمر بھر پیچھے سراب زیست کے بھاگا کرو اک ہوائے تند کا جھونکا اڑا لے جائے گا ریت کے ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں تو ساحل دریا کی پیاس ہونا تھا

    ہمیں تو ساحل دریا کی پیاس ہونا تھا سکوت ہجر کا اک غم شناس ہونا تھا کھلا ہے اس طرح اب کے نئی رتوں کا بھرم زمیں کو اتنا کہاں بے لباس ہونا تھا انہیں بھی وقت نے پتھر بنا دیا جن کو ہمارے عہد کا آدم شناس ہونا تھا پہن کے مجھ کو ایک روز تمنا کا لباس لہو لہو کوئی تصویر یاس ہونا تھا بھٹک ...

    مزید پڑھیے