ہمیں تو ساحل دریا کی پیاس ہونا تھا
ہمیں تو ساحل دریا کی پیاس ہونا تھا
سکوت ہجر کا اک غم شناس ہونا تھا
کھلا ہے اس طرح اب کے نئی رتوں کا بھرم
زمیں کو اتنا کہاں بے لباس ہونا تھا
انہیں بھی وقت نے پتھر بنا دیا جن کو
ہمارے عہد کا آدم شناس ہونا تھا
پہن کے مجھ کو ایک روز تمنا کا لباس
لہو لہو کوئی تصویر یاس ہونا تھا
بھٹک رہے ہو کہاں دوست اپنے مرکز سے
تمہیں تو فیضؔ کے دل کے ہی پاس ہونا تھا