چاہتوں کو نت نئے انداز سے دیکھا کرو

چاہتوں کو نت نئے انداز سے دیکھا کرو
وصل کی راحت میں فرقت کا سماں لکھا کرو


کیا پتہ ان کی بھی لگ جائے کوئی قیمت کہیں
سنگریزوں کو بھی ہیروں کی طرح پرکھا کرو


ذات کے صحرا میں کر پاؤ گے کیا اپنی تلاش
عمر بھر پیچھے سراب زیست کے بھاگا کرو


اک ہوائے تند کا جھونکا اڑا لے جائے گا
ریت کے سینے پہ کوئی نام مت لکھا کرو


تم بہت گھبرا گئے گھر کی ویرانی سے فیضؔ
اب ہجوم شہر میں تنہائیاں ڈھونڈا کرو