فیض خلیل آبادی کی غزل

    لے کے اس گھاٹ سے اس گھاٹ گئی میرا وجود

    لے کے اس گھاٹ سے اس گھاٹ گئی میرا وجود فکر دیمک کی طرح چاٹ گئی میرا وجود میری بربادی میں اک شاخ بھی شامل تھی مری خود کلہاڑی تو نہیں کاٹ گئی میرا وجود اپنے معیار کا بھی دام نہ مل پایا مجھے زندگی لے کے کئی ہاٹ گئی میرا وجود میں سکندر تھا مگر آخری منزل کی طرف لے کے اک ٹوٹی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    لگا کہ جیسے کسی کانپتے ہرن کو چھوا

    لگا کہ جیسے کسی کانپتے ہرن کو چھوا ہمارے ہاتھوں نے جب پھول سے بدن کو چھوا تمام جسم میں آسودگی سی پھیل گئی ترے دہن نے کبھی جب مرے دہن کو چھوا سمٹ کے آ گئی کاغذ پہ صورت اشعار ہماری فکر نے جب بھی کسی گھٹن کو چھوا کئی مقام پہ دونوں ملے ضرور مگر کشن نے رادھا کو رادھا نے کب کشن کو ...

    مزید پڑھیے

    جو فن سے فکر کی تدبیر گفتگو کرے گی

    جو فن سے فکر کی تدبیر گفتگو کرے گی تو گونگی بہری بھی تصویر گفتگو کرے گی میں جیتے جی اسے ایسا ہنر سکھا دوں گا کہ میرے بعد یہ تحریر گفتگو کرے گی عدالتوں میں گواہی ہمیں ملے نہ ملے ہمارے پاؤں کی زنجیر گفتگو کرے گی اسی امید پہ آنکھوں کے خواب زندہ ہیں کہ ایک دن کوی تعبیر گفتگو کرے ...

    مزید پڑھیے

    بھنگ کھاتے ہیں نہ گانجا نہ چرس پیتے ہیں

    بھنگ کھاتے ہیں نہ گانجا نہ چرس پیتے ہیں ہم وہ بھنورے ہیں جو احساس کا رس پیتے ہیں آپ اس ڈھنگ سے امرت بھی نہیں پی سکتے جس ہنر مندی سے ہم اشک نفس پیتے ہیں سب یہیں چھوڑ کے جانا ہے خبر ہے لیکن پھر یہ ہم کس لئے دنیا کی ہوس پیتے ہیں جو تری یاد کے کیڑے ہیں بدن کے اندر وہ مری روح کو کھاتے ...

    مزید پڑھیے

    تمام حسن و معانی کا رنگ اڑنے لگا

    تمام حسن و معانی کا رنگ اڑنے لگا کھلی جو دھوپ تو پانی کا رنگ اڑنے لگا اشارا کرتی ہیں چہرے کی جھریاں چپ چاپ تو کیا بدن سے جوانی کا رنگ اڑنے لگا جدید رنگ میں آیا جو مصرع اولیٰ حسد سے مصرع ثانی کا رنگ اڑنے لگا کتاب زیست کے مفہوم کو سمجھتے ہی یہاں بڑے بڑے گیانی کا رنگ اڑنے لگا جو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2