Ejaz Parwana

اعجاز پروانہ

  • 1972

اعجاز پروانہ کی غزل

    ملا قطرہ تو کرتے کیوں شکایت تم مقدر کی

    ملا قطرہ تو کرتے کیوں شکایت تم مقدر کی گلہ قسمت کا ہے پھر کیوں نہ کوشش کی سمندر کی بڑے اخلاق والی ان کی اولاد نرینہ ہے شریعت کے تمسخر میں زباں چلتی ہے دختر کی اگر ہے خاکساری تو بلندی پر قدم ہوں گے جگہ فرعون حاصل کر نہیں سکتا سکندر کی خدا پر ہو یقیں کامل اگر انساں نہ ہو ...

    مزید پڑھیے

    مصیبت کے بھنور میں بھی شناور وہ سنبھلتا ہے

    مصیبت کے بھنور میں بھی شناور وہ سنبھلتا ہے یقیں ہو جس کو خود پر وہ تلاطم سے نکلتا ہے ہتھیلی کی لکیروں سے نجومی کی ہی باتوں سے نکما اور کاہل تو خوشی سے بس اچھلتا ہے وفا کی راہ میں ہمدم غریبی ہو گئی حائل تجھے پانے کی خواہش میں مرا تو دل مچلتا ہے ہواؤں سے نہ گھبراؤ چراغوں کو جلانے ...

    مزید پڑھیے

    سب منافق ہی نظر آتے ہیں باطل کے سوا

    سب منافق ہی نظر آتے ہیں باطل کے سوا ہیں سبھی شاد مرے قتل پہ قاتل کے سوا اشک آنکھوں سے گناہوں کی ندامت میں بہے تب بھنور سے نہ کہیں پہنچا میں ساحل کے سوا خواب دیکھو ہے ترقی کی ضمانت بے شک سب کو تعبیر مگر ملتی ہے کاہل کے سوا مسلکی جھگڑے فروعی یہ مسائل کو لئے آگ عالم ہی لگاتے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    تری رحمتوں کا طالب مجھے آس تیرے در سے

    تری رحمتوں کا طالب مجھے آس تیرے در سے یہ قدم بہک نہ جائے مری مفلسی کے ڈر سے ہے تونگروں کا میلہ تو غریب ہے اکیلا ترا دل نہ ٹوٹ جائے تو ابھی نہ جا ادھر سے کئی جام خالی کرکے وہ ابھی بھی ہوش میں ہیں میں نشہ میں ہوں قسم سے میں نے پی جو لی نظر سے اسے خوف نے کنارے پہ پہنچنے نہ دیا ...

    مزید پڑھیے