سب منافق ہی نظر آتے ہیں باطل کے سوا
سب منافق ہی نظر آتے ہیں باطل کے سوا
ہیں سبھی شاد مرے قتل پہ قاتل کے سوا
اشک آنکھوں سے گناہوں کی ندامت میں بہے
تب بھنور سے نہ کہیں پہنچا میں ساحل کے سوا
خواب دیکھو ہے ترقی کی ضمانت بے شک
سب کو تعبیر مگر ملتی ہے کاہل کے سوا
مسلکی جھگڑے فروعی یہ مسائل کو لئے
آگ عالم ہی لگاتے ہیں یہ جاہل کے سوا
ہوش میں مے وہ تصوف کی ہی پینے سے رہے
ہوش والے سبھی غفلت میں تھے غافل کے سوا
ہم پہ الزام جو غدار وطن کا دھرتے
اور ہو سکتے نہیں وہ کوئی بزدل کے سوا
چاپلوسی سے ریا کاری سے بے غیرتی سے
تم بنوگے سبھی کچھ رہبر کامل کے سوا
بھوک شہرت کی تجھے دیکھ نہ گمنام کرے
کام کر نام بھی ہوگا ترا حاصل کے سوا
شکوہ ہر دم ہی تعصب کا نہ پروانہؔ کرو
تم ہو قابل تو ملے کچھ بھی نہ منزل کے سوا