ذخیرہ گھر مقفل ہیں
گزرتے وقت کے ویراں جزیروں کی سزا پیشانیوں پر ثبت ہے
آزردگی کے کیل جسموں میں گڑے ہیں
بد نصیبی گردنوں کا طوق ہے
اور محنتوں کے ہات خالی ہیں
ہوا کے ساتھ گندم کی مہک شہروں میں اڑتی ہے
ذخیرہ گھر مقفل ہیں
مشقت کا بدل کڑوے کسیلے موسموں کا ذائقہ ہے
ہم پرانی جھولیاں پھیلائے خواہش کے اندھیرے راستوں پر
الٹے لٹکے چیختے ہیں
اور خوش فہمی کی مٹی پر لکیریں کھینچتے ہیں
آسماں کی سمت تکتے ہیں
کہ شاید رات دن کے درمیانی فاصلوں کے ختم ہونے کی بشارت ہو
دکھوں کے کاغذوں پہ سکھ عبارت ہو