اعجاز توکل کی غزل

    زمانے کی ستائی خودکشی ہے

    زمانے کی ستائی خودکشی ہے محبت ابتدائی خودکشی ہے جہاں سفاک آنکھیں گھات میں ہوں وہاں چہرہ نمائی خودکشی ہے میں رائے عشق پر اب اور کیا دوں کہا تو ہے کہ بھائی خودکشی ہے میں اس کو پھول دے کر خوش نہیں ہوں کہ یہ بھی دلربائی خودکشی ہے یہ استعمال کرنے پر کھلا ہے کہ خوشبو کیمیاٸی ...

    مزید پڑھیے

    یہ حکمت عملی ہے کوئی کینہ نہیں ہے

    یہ حکمت عملی ہے کوئی کینہ نہیں ہے اس ہجر کے گھاؤ کو ابھی سینا نہیں ہے اب سامنے بنتا ہے مرا عکس تماشا یہ ہرزہ سرائی پس آئینہ نہیں ہے کچھ دن کی شناسائی شناسائی نہ سمجھو یہ خود سے تعلق مرا دیرینہ نہیں ہے احکام یہاں دل کے ہی چلتے ہیں کم و بیش یہ عشق ہے اس کی کوئی کابینہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مارنے والی امنگوں کی طرح ہوتا ہے

    مارنے والی امنگوں کی طرح ہوتا ہے عشق بارودی سرنگوں کی طرح ہوتا ہے روشنی مجھ پہ بھی اتنا ہی اثر کرتی ہے میرا جلنا بھی پتنگوں کی طرح ہوتا ہے بعد میں آتی ہے تہذیب محبت صاحب ہر کوئی پہلے لفنگوں کی طرح ہوتا ہے اس سے بچنا ہی مناسب ہے ذرا دھیان رہے ہجر سفاک نہنگوں کی طرح ہوتا ہے ہے ...

    مزید پڑھیے

    درون عشق عجب تانا بانا بنتا ہے

    درون عشق عجب تانا بانا بنتا ہے ذرا سی بات کا کتنا فسانہ بنتا ہے میاں یہ شاخ محبت تمہارے سامنے ہے بناؤ اس پہ اگر آشیانہ بنتا ہے ہمارے درد پڑے ہیں چہار سمت یہاں سو مسکراؤ یہاں مسکرانا بنتا ہے چھپائے پھرتا ہوں آنکھوں میں اشک کے موتی کہ جمع کرنے سے دولت خزانہ بنتا ہے یہ دشت ہے ...

    مزید پڑھیے

    ہو کے باریک مل رہی ہے مجھے

    ہو کے باریک مل رہی ہے مجھے ہر خبر ویک مل رہی ہے مجھے خوش بہت ہیں ہم ایک دوسرے سے زندگی ٹھیک مل رہی ہے مجھے پھول ہے عشق کا سہولت کار اس سے تحریک مل رہی ہے مجھے مطمئن ہوں کے صاحبو ہر چیز گھر کے نزدیک مل رہی ہے مجھے مہ وشوں کو دعائیں دیتا ہوں حسن کی بھیک مل رہی ہے مجھے میں تیقن کی ...

    مزید پڑھیے

    بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں

    بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں کچھ خواب مرے عین جوانی میں مرے ہیں روتا ہوں میں ان لفظوں کی قبروں پے کئی بار جو لفظ مری شعلہ بیانی میں مرے ہیں کچھ تجھ سے یہ دوری بھی مجھے مار گئی ہے کچھ جذبے مرے نقل مکانی میں مرے ہیں قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو ہم لوگ محبت کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2