درون عشق عجب تانا بانا بنتا ہے
درون عشق عجب تانا بانا بنتا ہے
ذرا سی بات کا کتنا فسانہ بنتا ہے
میاں یہ شاخ محبت تمہارے سامنے ہے
بناؤ اس پہ اگر آشیانہ بنتا ہے
ہمارے درد پڑے ہیں چہار سمت یہاں
سو مسکراؤ یہاں مسکرانا بنتا ہے
چھپائے پھرتا ہوں آنکھوں میں اشک کے موتی
کہ جمع کرنے سے دولت خزانہ بنتا ہے
یہ دشت ہے یہاں دیوانگی ضروری ہے
ہر ایک شخص جنوں کا نشانہ بنتا ہے
مری وفاؤں کو اب اعتبار حاصل ہے
سو اس کے گھر میں مرا آنا جانا بنتا ہے
تمہارے جیسی ہے اس کے مزاج میں شوخی
یہ رنگ میری نظر میں اڑانا بنتا ہے
اسے بتاتے ہیں غالبؔ کے رشتہ دار ہیں ہم
ہمارے سامنے جو بھی یگانہؔ بنتا ہے
رہی ہوں پانچ چھ پشتیں درون دشت تبھی
مرے عزیز جنوں کا گھرانا بنتا ہے