یہ حسرتیں بھی مری سائیاں نکالی جائیں
یہ حسرتیں بھی مری سائیاں نکالی جائیں کہ دشت ہی کی طرف کھڑکیاں نکالی جائیں بہار گزری قفس ہی میں ہاؤ ہو کرتے خزاؤں میں تو مری بیڑیاں نکالی جائیں یہ شام کافی نہیں ہے سیہ لباسی کو شفق سے اور ذرا سرخیاں نکالی جائیں تو بچ رہیں گی برہنہ بدن کی سوغاتیں محبتوں سے اگر دوریاں نکالی ...