دیکھتے ہی دھڑکنیں ساری پریشاں ہو گئیں
دیکھتے ہی دھڑکنیں ساری پریشاں ہو گئیں
تیری آنکھیں اے ستم گر آفت جاں ہو گئیں
آ گیا پلکوں پہ اشکوں کے پتنگوں کا ہجوم
جب کسی کی یاد کی شمعیں فروزاں ہو گئیں
پھر مری تسبیح کے دانے بکھر کر رہ گئے
پھر دعائیں آج ان کے در کی مہماں ہو گئیں
ان کے ہر اک لمس کا ایسا اثر مجھ پر ہوا
دل کی دیواریں سبھی شہر نگاراں ہو گئیں
یہ شب تنہائی صادقؔ مجھ کو ڈس لیتی مگر
شکر ہے یادیں در دل کی نگہباں ہو گئیں