Dutta Saghar

دتا ساغر

  • 1953

دتا ساغر کی غزل

    یاروں کی یاریاں ہیں سلامت تو مرحبا

    یاروں کی یاریاں ہیں سلامت تو مرحبا ہوتی رہے جو روز قیامت تو مرحبا ہم کو جہان بھر کے الم بھی چلو قبول بس آپ کی رہے جو عنایت تو مرحبا ویسے مجھے یقین ہے پھر بھی مرے اے دوست تیرا بھی گر خدا ہے محبت تو مرحبا دیوانہ کر گئی ہیں تری مسکراہٹیں یہ بھی اگر ہے تیری شرارت تو مرحبا نازک لبی ...

    مزید پڑھیے

    لڑکھڑاتے قدم ہیں اور میں ہوں

    لڑکھڑاتے قدم ہیں اور میں ہوں بس ستم پر ستم ہیں اور میں ہوں دل کی محفل میں اب رکھا کیا ہے رقص پیہم الم ہیں اور میں ہوں دیر و کعبہ تمہیں مبارک ہو ان کے نقش قدم ہیں اور میں ہوں کتنی صدیاں گزر گئیں لیکن وہی ظلم و ستم ہیں اور میں ہوں اک ترا درد ہی نہیں تنہا ایسے کتنے ہی غم ہیں اور میں ...

    مزید پڑھیے

    دیے ماٹی کے نہیں دل کے جلا کرتے تھے

    دیے ماٹی کے نہیں دل کے جلا کرتے تھے کبھی اس ملک میں انساں بھی رہا کرتے تھے اب تو ڈستے ہوئے سناٹے ہیں بس دور تلک گوشے گوشے میں جہاں جشن ہوا کرتے تھے بے سہاروں کی قطاروں میں انہیں دیکھا ہے کبھی جو ہاتھ ستاروں کو چھوا کرتے تھے یہ اجنتا یہ حسیں تاج خبر دیتا ہے پتھروں میں بھی یہاں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی ادھورے ہیں گیت میرے ابھی ادھوری سی داستاں ہے

    ابھی ادھورے ہیں گیت میرے ابھی ادھوری سی داستاں ہے نہ چاند نکلا نہ تارے دمکے نہ مسکراتی وہ کہکشاں ہے ابھی تو ہونٹوں پہ آہ سی ہے بجھی بجھی کچھ نگاہ سی ہے ابھی تو ہر سو خموشیاں ہیں ابھی تو ہر سو دھواں دھواں ہے ابھی تو راہوں میں پیچ و خم ہیں کہ حادثے بھی قدم قدم ہیں ابھی تو باقی کئی ...

    مزید پڑھیے