ابھی ادھورے ہیں گیت میرے ابھی ادھوری سی داستاں ہے

ابھی ادھورے ہیں گیت میرے ابھی ادھوری سی داستاں ہے
نہ چاند نکلا نہ تارے دمکے نہ مسکراتی وہ کہکشاں ہے


ابھی تو ہونٹوں پہ آہ سی ہے بجھی بجھی کچھ نگاہ سی ہے
ابھی تو ہر سو خموشیاں ہیں ابھی تو ہر سو دھواں دھواں ہے


ابھی تو راہوں میں پیچ و خم ہیں کہ حادثے بھی قدم قدم ہیں
ابھی تو باقی کئی ستم ہیں ابھی تو باقی کچھ امتحاں ہے


ابھی تو قوس قزح کے جیسے ہیں خواب بننے حسین کتنے
وہ پھول بھی تو ابھی ہیں چننے ازل سے جن کی مہک رواں ہے