Dr. Rakesh Joshi

ڈاکٹر راکیش جوشی

ڈاکٹر راکیش جوشی کی غزل

    تیری دعوت میں گر کھانا نہیں تھا

    تیری دعوت میں گر کھانا نہیں تھا تجھے تنبو بھی لگوانا نہیں تھا مرا کرتا پرانا ہو گیا ہے مجھے محفل میں یوں آنا نہیں تھا عمارت میں لگا لیتا اسے میں مجھے پتھر سے ٹکرانا نہیں تھا یہ میرا تھا سفر میں نے چنا تھا مجھے کانٹوں سے گھبرانا نہیں تھا سمجھ لیتا میں خود ہی بات اس کی مجھے اس ...

    مزید پڑھیے

    اگر لکھنا منع ہے تو قلم کا کارخانہ کیوں

    اگر لکھنا منع ہے تو قلم کا کارخانہ کیوں اگر پڑھنا منع ہے تو یہاں کاغذ بنانا کیوں اسی دنیا میں بہتر اک نئی دنیا بسانے کو یہاں تک آ گئے ہیں تو یہاں سے لوٹ جانا کیوں وہاں لے کر ہی کیوں آیا جہاں پھسلن ہی پھسلن ہے یہ جنتا ہی نہیں سمجھی تو راجہ ہے تو مانا کیوں کئی برسوں سے اس پر ہی بحث ...

    مزید پڑھیے

    دیواروں سے کان لگا کر بیٹھے ہو

    دیواروں سے کان لگا کر بیٹھے ہو پہرے پر دربان لگا کر بیٹھے ہو اس سے زیادہ کیا بیچو گے دنیا کو سارا تو سامان لگا کر بیٹھے ہو دکھ میں ڈوبی آوازیں نہ سن پائے ایسا بھی کیا دھیان لگا کر بیٹھے ہو بیچ رہا ہوں میں تو اپنے کچھ سپنے تم تو سنویدھان لگا کر بیٹھے ہو ہم نے تو گن ڈالے ہیں ٹوٹے ...

    مزید پڑھیے

    خنجر کو خنجر کہنا ہے

    خنجر کو خنجر کہنا ہے ایسا اب اکثر کہنا ہے سہمے سہمے ڈرے ہوئے ہو ڈر کو بھی اب ڈر کہنا ہے شیشوں کے اس شہر میں آ کر پتھر کو پتھر کہنا ہے کھیتوں میں ہل لے کر نکلو بنجر کو بنجر کہنا ہے جنگل میں تم سب کو جا کر بندر کو بندر کہنا ہے سردی کے ہی موسم میں تو بے گھر کو بے گھر کہنا ہے عجب ...

    مزید پڑھیے