تیری دعوت میں گر کھانا نہیں تھا
تیری دعوت میں گر کھانا نہیں تھا
تجھے تنبو بھی لگوانا نہیں تھا
مرا کرتا پرانا ہو گیا ہے
مجھے محفل میں یوں آنا نہیں تھا
عمارت میں لگا لیتا اسے میں
مجھے پتھر سے ٹکرانا نہیں تھا
یہ میرا تھا سفر میں نے چنا تھا
مجھے کانٹوں سے گھبرانا نہیں تھا
سمجھ لیتا میں خود ہی بات اس کی
مجھے اس کو تو سمجھانا نہیں تھا
تجھے راجا بنا دیتے کبھی کا
مگر افسوس تو کانا نہیں تھا
چھپاتے ہم کہاں پر آنسوؤں کو
وہاں کوئی بھی تہہ خانہ نہیں تھا
محبت تو عبادت تھی کسی دن
فقط جی کا ہی بہلانا نہیں تھا
جہاں پر یدھ میں شامل تھے سارے
وہاں تم کو بھی گھبرانا نہیں تھا