Bushra Ejaz

بشریٰ اعجاز

بشریٰ اعجاز کی نظم

    میرے خاموش خدا

    مرے خاموش خدا ساتھ مرے بول ذرا مرے اندر تو اتر میری تمنا میں دھڑک میں جو آنکھوں میں تھکن رکھ کے سفر کرتی ہوں مری راتوں کو مرے خواب نہ ڈس جائیں کہیں میرے اندر وہ خیالات نہ بس جائیں کہیں جن کو ممنوعہ زمینوں کی حکایات کہا جاتا ہے تیرگی پر جسے لکھی ہوئی وہ رات کہا جاتا ہے جس کی قسمت ...

    مزید پڑھیے

    یہ شہر نارسائی ہے

    یہ شہر نارسائی ہے یہاں دستور گویائی نہیں ہے یہاں لب کھولنا بھی جرم ہے یہاں پر جب کبھی آؤ خموشی کا ارادہ باندھ کر آؤ یہاں گونگے گھروں کی ساری دیواروں میں آوازوں کے جنگل جاگتے ہیں یہاں آنکھیں نہیں ہوتیں یہاں دل بھی نہیں ہوتے یہاں بس ایک ہی چہرہ ہے باقی سارے چہرے اس کی نقلیں ...

    مزید پڑھیے

    میں جب خود سے بچھڑتی ہوں

    مری پلکوں پہ تابندہ تری آنکھوں کے آنسو مجھے تاریک راتوں میں نئے رستے سجھاتے ہیں وجودی واہموں کی سر زمینوں پر میں جب خود سے بچھڑتی ہوں چمکتی ریت کے ذروں کی صورت جب بکھرتی ہوں مجھے وہ اپنے نم سے جوڑ دیتے ہیں مجھے خود سے ملاتے ہیں میں جب دن کی بہت لمبی مسافت میں اداسی کی تھکن سے چور ...

    مزید پڑھیے

    انہیں ڈھونڈو

    انہیں ڈھونڈھو سفر کی شام سے پہلے کسی انجام سے پہلے انہیں ڈھونڈو جو ملنے کی گھڑی میں ہم سے بچھڑے تھے دلوں سے پھوٹتے اس غم سے بچھڑے تھے جو آنکھیں خشک رکھتا ہے مگر دہلیز جاں تک پانیوں کو چھوڑ جاتا ہے جو رستہ دل کی گلیوں سے نکلتا ہو اسی رستے کی ہر اک سمت کو وہ موڑ جاتا ہے مسرت کی ہری ...

    مزید پڑھیے

    پنچھی تے پردیسی.....

    پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے جلا وطنوں کے پاؤں کے تلے دھرتی بڑی کمزور ہوتی ہے کبھی رستہ نہیں ہوتا کبھی سایہ نہیں ہوتا شجر کی آرزوئیں دھوپ کے آنسو بہاتی ہیں مگر بارش نہیں ہوتی پرندے اور پردیسی کبھی واپس نہیں آتے دعائیں گٹھریوں میں باندھ کر چوکھٹ پہ بیٹھی ماؤں کے پتھر ...

    مزید پڑھیے

    تمہاری چپ مرا آئینہ ہے

    تمہاری چپ مجھے ہر بار جینے کی نئی اک بد گمانی سونپ دیتی ہے میں لفظوں کے خیالوں کے سنہری سرمئی رنگین نقطوں سے کہانی کا نیا اک موڑ لکھتی ہوں بکھرتی زندگانی کو نئی ترتیب دینے کی بہت کوشش میں کرتی ہوں مگر تم تک رسائی کا کوئی رستہ نہیں بنتا تم اپنی چپ کے سچے مست لمحوں میں خود اپنے آپ ...

    مزید پڑھیے

    ایک مسافر سے

    تھکا سورج اجڑتی شب کے پہلو میں پناہیں ڈھونڈھتا ہے خیمۂ جاں میں سفر لمحہ طنابیں کھولتا ہے جدائی راستہ روکے کھڑی ہے اداسی ساحلوں پر ریت کی صورت بچھی ہے سفر آغاز ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے ابھی مت بادباں کھولو ذرا آرام کر لو

    مزید پڑھیے