بلقیس بیگم کی غزل

    قاصد تو خط کو لایا ہے کیوں کر کھلا ہوا

    قاصد تو خط کو لایا ہے کیوں کر کھلا ہوا خط ہے کہ ہے یہ میرا مقدر کھلا ہوا پڑتے ہی اک نظر ہوا زخمی دل و جگر قاتل تری نظر ہے کہ خنجر کھلا ہوا قاصد سے کیا کہوں میں لکھوں خط میں ان کو کیا پنہاں کے دل کا حال ہے ان پر کھلا ہوا

    مزید پڑھیے

    آتا ہے کوئی لطف کا ساماں لیے ہوئے

    آتا ہے کوئی لطف کا ساماں لیے ہوئے ہشیار اے خیال پریشاں لیے ہوئے اس سے نہ اضطراب محبت کو پوچھیے جو جی رہا ہو درد کا احساں لئے ہوئے بے چین کروٹوں سے یہ ظاہر ہے صاف صاف پنہاں ہی دل میں ہے غم پنہاں لیے ہوئے

    مزید پڑھیے

    یہی اک مشغلہ شام و سحر ہے

    یہی اک مشغلہ شام و سحر ہے تصور ہے ترا اور چشم تر ہے اسے ذکر بہار و باغ سے کیا قفس کو جو سمجھتا ہو کہ گھر ہے شب فرقت ہے اپنی کیسی پنہاں کہ جس کی شام محروم سحر ہے

    مزید پڑھیے