Bekhud Badayuni

بیخود بدایونی

  • 1857 - 1912

نامور کلاسیکی شاعر، داغ دہلوی کے شاگرد، مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز رہے

Prominent 19th century poet, disciple of Maulana Altaf Hussain Hali and Daagh Dehelvi, served as a magistr

بیخود بدایونی کی غزل

    ہیں وصل میں شوخی سے پابند حیا آنکھیں

    ہیں وصل میں شوخی سے پابند حیا آنکھیں اللہ رے ظالم کی مظلوم نما آنکھیں آفت میں پھنسائیں گی دیوانہ بنائیں گی وہ غالیہ سا زلفیں وہ ہوش ربا آنکھیں کیا جانیے کیا کرتا کیا دیکھتا کیا کہتا زاہد کو بھی میری سی دیتا جو خدا آنکھیں رحم ان کو نہ آیا تھا تو شرم ہی آ جاتی بیداد کے شکوے پر ...

    مزید پڑھیے

    رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے

    رقیبوں کا مجھ سے گلا ہو رہا ہے یہ کیا کر رہے ہو یہ کیا ہو رہا ہے دعا کو نہیں راہ ملتی فلک کی کچھ ایسا ہجوم بلا ہو رہا ہے وہ جو کر رہے ہیں بجا کر رہے ہیں یہ جو ہو رہا ہے بجا ہو رہا ہے وہ نا آشنا بے وفا میری ضد سے زمانے کا اب آشنا ہو رہا ہے چھپائے ہوئے دل کو پھرتے ہیں بیخودؔ کہ ...

    مزید پڑھیے

    درد دل میں کمی نہ ہو جائے

    درد دل میں کمی نہ ہو جائے دوستی دشمنی نہ ہو جائے تم مری دوستی کا دم نہ بھرو آسماں مدعی نہ ہو جائے بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے طالع بد وہاں بھی ساتھ نہ دے موت بھی زندگی نہ ہو جائے اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں عاشقی بندگی نہ ہو جائے کہیں بیخودؔ تمہاری ...

    مزید پڑھیے

    حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں

    حاصل اس مہ لقا کی دید نہیں عید ہے اور ہم کو عید نہیں چھیڑ دیکھو کہ خط تو لکھا ہے میرے خط کی مگر رسید نہیں جانتے ہوں امیدوار مجھے ان سے یہ بھی مجھے امید نہیں یوں ترستے ہیں مے کو گویا ہم پیر مے خانہ کے مرید نہیں خون ہو جائیں خاک میں مل جائیں حضرت دل سے کچھ بعید نہیں آؤ میرے مزار ...

    مزید پڑھیے

    نالے میں کبھی اثر نہ آیا

    نالے میں کبھی اثر نہ آیا اس نخل میں کچھ ثمر نہ آیا اللہ ری میری بے قراری چین ان کو بھی رات بھر نہ آیا کہتا ہوں کہ آ ہی جائے گا صبر یہ فکر بھی ہے اگر نہ آیا غفلت کے پڑے ہوئے تھے پردے وہ پاس رہا نظر نہ آیا آنکھوں سے ہوا جو کوئی اوجھل بیخودؔ مجھے کچھ نظر نہ آیا

    مزید پڑھیے

    شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا

    شکوہ سن کر جو مزاج بت بد خو بدلا ہم نے بھی ساتھ ہی تقریر کا پہلو بدلا کہئے تو کس کے پھنسانے کی یہ تدبیریں ہیں آج کیوں چیں بہ جبیں سے خم گیسو بدلا اک ترا ربط کہ دو دن کبھی یکساں نہ رہا اک مرا حال کہ ہرگز نہ سر مو بدلا ان حسینوں ہی کو زیبا ہے تلون اے دل ہاں خبردار جو بھولے سے کبھی تو ...

    مزید پڑھیے

    ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں

    ان کو دماغ پرسش اہل محن کہاں یہ بھی سہی تو ہم کو مجال سخن کہاں اک بوند ہے لہو کی مگر بے قرار ہے دل کو چھپائے زلف شکن در شکن کہاں تمکین خامشی نے انہیں بت بنا دیا سب اس گمان میں ہیں کہ ان کے دہن کہاں وہ شام وعدہ محو ہیں آرائشوں میں اور پہونچا ہے لے کے مجھ کو مرا سوء ظن کہاں بیخودؔ ...

    مزید پڑھیے

    کیوں مرا حال قصہ خواں سے سنو

    کیوں مرا حال قصہ خواں سے سنو یہ کہانی مری زباں سے سنو غم ہی غم ہے مرے فسانے میں دکھ ہی دکھ ہے اسے جہاں سے سنو مجھ سے پوچھو تم اپنے جی کا حال راز کی بات راز داں سے سنو غم مرے دل میں تم ہو پردے میں سچ تو ہے تم اسے کہاں سے سنو چھپ گیا ہے فسانۂ بیخودؔ کبھی تم بھی تو قصہ خواں سے سنو

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2