Bekhud Badayuni

بیخود بدایونی

  • 1857 - 1912

نامور کلاسیکی شاعر، داغ دہلوی کے شاگرد، مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز رہے

Prominent 19th century poet, disciple of Maulana Altaf Hussain Hali and Daagh Dehelvi, served as a magistr

بیخود بدایونی کی غزل

    ساتھ ساتھ اہل تمنا کا وہ مضطر جانا

    ساتھ ساتھ اہل تمنا کا وہ مضطر جانا اللہ اللہ ترا بزم سے اٹھ کر جانا رہبری کر کے مری خضر بھی چکر میں پڑے اب انہیں جلوہ گہہ یار میں اکثر جانا داغ کم حوصلگی دل کو گوارا نہ ہوا ورنہ کچھ ہجر میں دشوار نہ تھا مر جانا سادگی سے یہ گماں ہے کہ بس اب رحم کیا مطمئن ہوں کہ مجھے آپ نے مضطر ...

    مزید پڑھیے

    جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں

    جس میں سودا نہیں وہ سر ہی نہیں درد جس میں نہیں جگر ہی نہیں لوگ کہتے ہیں وہ بھی ہیں بے چین کچھ یہ بے تابیاں ادھر ہی نہیں دل کہاں کا جو درد دل ہی نہ ہو سر کہاں کا جو درد سر ہی نہیں بے خبر جن کی یاد میں ہیں ہم خیر سے ان کو کچھ خبر ہی نہیں بیخودؔ محو و شکوہ ہائے عتاب اس منش کا تو وہ بشر ...

    مزید پڑھیے

    آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں

    آہ کرنا دل حزیں نہ کہیں آگ لگ جائے گی کہیں نہ کہیں مرے دل سے نکل کے دنیا میں چین سے حسرتیں رہیں نہ کہیں بے حجابی نگاہ الفت کی دیکھے وہ شرمگیں کہیں نہ کہیں آ گئے لب پہ دل نشیں نالے جا ہی پہنچیں گے اب کہیں نہ کہیں ہم سمجھتے ہیں حضرت بیخودؔ چوٹ کھا آئے ہو کہیں نہ کہیں

    مزید پڑھیے

    حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا تیرا

    حشر پر وعدۂ دیدار ہے کس کا تیرا لاکھ انکار اک اقرار ہے کس کا تیرا نہ دوا سے اسے مطلب نہ شفا سے سروکار ایسے آرام میں بیمار ہے کس کا تیرا لاکھ پردے میں نہاں شکل ہے کس کی تیری جلوہ ہر شے سے نمودار ہے کس کا تیرا اور پامال ستم کون ہے تو ہے بیخودؔ اس ستم گر سے سروکار ہے کس کا تیرا

    مزید پڑھیے

    کیوں میں اب قابل جفا نہ رہا

    کیوں میں اب قابل جفا نہ رہا کیا ہوا کہیے مجھ میں کیا نہ رہا ان کی محفل میں اس کے چرچے ہیں مجھ سے اچھا مرا فسانہ رہا واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے میکدہ اب تو میکدہ نہ رہا اف رے نا آشنائیاں اس کی چار دن بھی تو آشنا نہ رہا لاکھ پردے میں کوئی کیوں نہ چھپے راز الفت تو اب چھپا نہ رہا اتنی ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی رہا جو بتوں پر نثار دل میرا

    یوں ہی رہا جو بتوں پر نثار دل میرا کرے گا مجھ کو زمانے میں خوار دل میرا چلی چلی مژۂ اشک بار آنکھ مری جلا جلا نفس شعلہ بار دل میرا عجیب مونس و ہمدرد و ذی مروت تھا غریق رحمت پروردگار دل میرا وفور شرم سے واں اجتناب مد نظر ہجوم شوق سے یاں بے قرار دل میرا بنا دیا اسے خودبین و خود ...

    مزید پڑھیے

    اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے

    اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے اے شوق ہرزہ تاز کہاں لے چلا مجھے یہ درد دل ہی زیست کا باعث ہے چارہ گر مر جاؤں گا جو آئی موافق دوا مجھے اس ذوق ابتلا کا مزہ اس کے دم سے ہے سب کچھ ملا ملا ہو دل مبتلا مجھے دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے یہ دل سے ...

    مزید پڑھیے

    گردش چشم یار نے مارا

    گردش چشم یار نے مارا دور لیل و نہار نے مارا مر رہا ہوں مگر نہیں مرتا خلش انتظار نے مارا سخت جانی مری جو سن پائی دم نہ پھر تیغ یار نے مارا وصل میں بھی یہ مضطرب ہی رہا اس دل بے قرار نے مارا ہم تو جیتے ابھی مگر بیخودؔ ستم روزگار نے مارا

    مزید پڑھیے

    کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا

    کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا ہزار شکر وہ عاشق تو جانتے ہیں مجھے جو کہتے ہیں کہ ترا دل کہیں ضرور آیا جو با حواس تھا دیکھا اسی نے جلوۂ یار جسے سرور نہ آیا اسے سرور آیا خدا وہ دن بھی دکھائے کہ میں کہوں بیخودؔ جناب داغؔ سے ملنے میں رام پور آیا

    مزید پڑھیے

    پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا

    پیام لے کے جو پیغام بر روانہ ہوا حسد کو حیلہ ملا اشک کو بہانہ ہوا وہ میری آہ جو شرمندۂ اثر نہ ہوئی وہ میرا درد جو منت کش دوا نہ ہوا خیال میں نہ رہیں صورتیں عزیزوں کی وطن سے چھوٹے ہوئے اس قدر زمانہ ہوا وہ داغ جس کو جگہ دل میں دی تھی جیتے جی چراغ بھی تو ہمارے مزار کا نہ ہوا پری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2