فریاد ہے اب لب پر جب اشک فشانی تھی
فریاد ہے اب لب پر جب اشک فشانی تھی یہ اور کہانی ہے وہ اور کہانی تھی اب دل میں رہا کیا ہے جز حسرت و ناکامی وہ نیش کہاں باقی خود جس کی نشانی تھی جب درد سا تھا دل میں اب درد ہی خود دل ہے ہاں اب جو حقیقت ہے پہلے یہ کہانی تھی پر آب سی رہتی تھیں پہلے یہ مری آنکھیں ہاں ہاں اسی دریا میں ...