Bayan Ahsanullah Khan

بیاں احسن اللہ خان

ممتاز کلاسیکی شاعر، میرتقی میر کے ہم عصر

Leading classical Urdu poet. Contemporary of Mir Taqi Mir.

بیاں احسن اللہ خان کی غزل

    یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ

    یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ بلا سے پھاڑ کے پھر ہاتھ میں نہ لے کاغذ وہ کون دن ہے کہ غیروں کو خط نہیں لکھتا قلم کے بن کو لگے آگ اور جلے کاغذ تمام شہر میں تشہیر میرے بد خو نے پیام بر کو کیا باندھ کر گلے کاغذ بہا دوں ایسے کئی دفتر اشک کی رو میں کیے ہیں جمع ارے غافلو بھلے ...

    مزید پڑھیے

    نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ

    نہ فقط یار بن شراب ہے تلخ عیش و آرام و خورد و خواب ہے تلخ میٹھی باتیں کدھر گئیں پیارے اب تو ہر بات کا جواب ہے تلخ ساتھ دینا یہ بوسہ و دشنام قند شیریں ہے اور گلاب ہے تلخ دل ہی سمجھے ہے اس حلاوت کو گو بہ ظاہر ترا عتاب ہے تلخ دل سے مستوں کے کوئی پوچھے بیاں زاہدوں کو شراب ناب ہے ...

    مزید پڑھیے

    رات اس تنک مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی

    رات اس تنک مزاج سے کچھ بات بڑھ گئی وہ روٹھ کر گیا تو غضب رات بڑھ گئی یہ کہیو ہم نشیں مجھے کیا کیا نہ کہہ گئے میں گھٹ گیا نہ آپ کی کچھ ذات بڑھ گئی بوسے کے نام ہی پہ لگے کاٹنے زباں کتنی عمل سے آگے مکافات بڑھ گئی چشموں سے میرے شہر میں طوفان گریہ ہے نادان جانتے ہیں کہ برسات بڑھ ...

    مزید پڑھیے

    مت ستا مجھ کو آن آن عزیز

    مت ستا مجھ کو آن آن عزیز ٹک کہا بھی کسی کا مان عزیز کیونکے دل اس سے پھیر لوں ناصح جس سے رکھتا نہیں ہوں جان عزیز یاں ہے خواہش خدنگ کی تیرے نہ رکھے گو کہ واں کمان عزیز دل ادھر کھینچتا ہے سینہ ادھر سب کو ہوتا ہے مہمان عزیز دل سے خادم ہوں میں بیاںؔ ان کا جتنے ہیں میرے مہربان عزیز

    مزید پڑھیے

    یا رب نہ ہند ہی میں یہ ماٹی خراب ہو

    یا رب نہ ہند ہی میں یہ ماٹی خراب ہو جا کر نجف میں خاک در بو تراب ہو سایہ کرے وہ لطف سے سایہ جسے نہ تھا جس وقت روز حشر میں گرم آفتاب ہو حاصل ہو اس نفس کو صفت مطمئنہ کی پیش اس سے ارجعی کا ادھر سے خطاب ہو جب چشم بستگی ہو مجھے اس جہان میں آنکھوں کے سامنے وہی عالی جناب ہو اے یار یاں تو ...

    مزید پڑھیے

    یہ خوب رو نہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں

    یہ خوب رو نہ چھری نے کٹار رکھتے ہیں نگاہ لطف سے عالم کو مار رکھتے ہیں چراغ گور نہ شمع مزار رکھتے ہیں بس ایک ہم یہ دل داغ دار رکھتے ہیں شراب عشق نہ اے دوست پیجیو ہرگز اسی نشے کا ہم اب تک خمار رکھتے ہیں مری زبانی کوئی اس سے اس قدر پوچھے کہیں یہ جھوٹے بھی وعدے شمار رکھتے ہیں قیامت ...

    مزید پڑھیے

    پوچھتا کون ہے ڈرتا ہے تو اے یار عبث

    پوچھتا کون ہے ڈرتا ہے تو اے یار عبث قتل کرنے سے مرے ہے تجھے انکار عبث کیا مری آنکھ عدم بیچ لگی تھی اے چرخ کیا اس خواب سے تو نے مجھے بیدار عبث وصل ہی اس کا دوا ہے مری بیماری کو اور کچھ کرتے ہیں تدبیر یہ غم خوار عبث یار تنہا ہے پھر ایسا نہیں ملنے کا وقت شرم ہوتی ہے میری مانع گفتار ...

    مزید پڑھیے

    دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں

    دل اب اس دل شکن کے پاس کہاں چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں صبر بیمار عشق کی ہے دوا پر طبیعت سے میری راس کہاں صبح آنے کا اس کے وعدہ ہے مجھ کو پر رات بھر کی آس کہاں دشمن جاں کو دوست سمجھا میں وہ کہاں میں کہاں قیاس کہاں کیا ہوا اس کو دیکھتے ہی بیاںؔ ہوش کیدھر گئے حواس کہاں

    مزید پڑھیے

    فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر

    فرہاد کس امید پہ لاتا ہے جوئے شیر واں خون کی ہوس ہے نہیں آرزوئے شیر ہے اس جواں کی بات میں اب تو لہو کی باس وے دن گئے کہ آتی تھی اس منہ سے بوئے شیر ہوتے ہی صبح آہ گیا ماہ چار دہ ثابت ہوا مجھے کہ نمک ہے عدوئے شیر حسرت ہی دل میں کوہ کن آخر یہ لے گیا شیریں نے اپنی آنکھوں بھی دیکھا نہ ...

    مزید پڑھیے

    کہتا ہے کون ہجر مجھے صبح و شام ہو

    کہتا ہے کون ہجر مجھے صبح و شام ہو پر وصل میں بھی لطف نہیں جو مدام ہو شکوہ کیا ہو میرے لب زخم نے کبھو تو مجھ پہ آب تیغ الٰہی حرام ہو صاحب تم اپنے منہ کو چھپاتے ہو مجھ سے کیوں ہے اس سے کیا حجاب جو اپنا غلام ہو منہ لگنے سے رقیب کے اب سر چڑھے ہیں سب کر ڈالے اس کو ذبح ابھی انتظام ہو مت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3