یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ
یہ آرزو ہے کہ وہ نامہ بر سے لے کاغذ بلا سے پھاڑ کے پھر ہاتھ میں نہ لے کاغذ وہ کون دن ہے کہ غیروں کو خط نہیں لکھتا قلم کے بن کو لگے آگ اور جلے کاغذ تمام شہر میں تشہیر میرے بد خو نے پیام بر کو کیا باندھ کر گلے کاغذ بہا دوں ایسے کئی دفتر اشک کی رو میں کیے ہیں جمع ارے غافلو بھلے ...