ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے
ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے دل پریشاں روح ترساں چشم گریاں اب بھی ہے کب سنبھالے سے سنبھلتا ہے دل پر اضطراب آہ سوزاں لب پر اب بھی سینہ بریاں اب بھی ہے سعی کوشش کے لیے میدان ہے اب بھی فراخ عزم راسخ کی ضرورت ہم کو ہاں ہاں اب بھی ہے تخم میں روئیدگی ہر نخل میں ...