بقا بلوچ کی نظم

    نئے سمے کی کوئل

    پھیل رہی ہے چاروں جانب نئے سمے کی سندر خوشبو آنے والے کل کی قسمت نہ میں جانوں نہ جانے تو سبزہ رنگت تتلی جگنو جانے کب سے چمک رہے ہیں پیڑ کی ہر اک شاخ پہ آنسو اور اس پیڑ کی اک ڈالی پر کوئل کرتی جائے کو کو کوئل کرتی جائے کو کو دیکھتی جائے یونہی ہر سو وقت کو جاتے دیکھ رہی ہے اور یہ ...

    مزید پڑھیے

    سندیسہ

    اسے کہنا یہاں سب کچھ تمہارے بن ادھورا ہے گئے لمحوں کی یادیں ہیں عذاب زندگانی ہے فراق ناگہانی ہے اسے کہنا کہ لوٹ آئے

    مزید پڑھیے

    ماں

    وہ کون ہے جو اداس راتوں کی چاندنی ہیں کئی دعائیں لبوں پہ لے کر ملول ہو کر بھلا کے ساری تھکان دن کی یہ سوچتی ہے کہ میں نہ جانے ہزار میلوں پرے جو بیٹھا ہوں کس طرح ہوں وہ کون ہے جو اداس راتوں کے رت جگے میں دعاؤں کی مشعلیں جلانے کھڑی ہوئی ہے دعائیں جس کی مرے لئے ہیں میں ان دعاؤں کے زیر ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اک شعر کہنا ہے

    اداسی کے حسیں لمحوں کہاں ہو تم کہ میں کب سے تمہاری راہ میں خوابوں کے نذرانے لئے بیٹھا حسیں یادوں کی جھولی میں کہیں گم ہوں ارے لمحو مجھے اس خواب سے بیدار کرنے کے لئے آؤ میری سوچوں کے خاکوں میں ارے لمحوں کوئی اک رنگ بھر جاؤ مجھے اک شعر کہنا ہے

    مزید پڑھیے