بقا بلوچ کی غزل

    کیا پوچھتے ہو میں کیسا ہوں

    کیا پوچھتے ہو میں کیسا ہوں اک سرد ہوا کا جھونکا ہوں ہے مری روح میں بے چینی میں اپنے آپ میں الجھا ہوں ہے مرا سایہ اور کوئی میں اور کسی کا سایہ ہوں تو خوش ہے اپنی دنیا میں میں تری یاد میں جلتا ہوں اب لوٹ کے آ اور دیکھ بقاؔ اک عمر سے تنہا تنہا ہوں

    مزید پڑھیے

    وعدے جھوٹے قسمیں جھوٹی

    وعدے جھوٹے قسمیں جھوٹی دنیا کی سب باتیں جھوٹی کھینچی ہیں جو سچے دل سے وہ بے نام لکیریں جھوٹی اس کی آنکھیں بول رہی ہیں سب خوش رنگ شبیہیں جھوٹی امن کے سارے سپنے جھوٹے سپنوں کی تعبیریں جھوٹی ہم نے جن کو سچا جانا نکلیں وہ سب باتیں جھوٹی آج ہمیں معلوم ہوا ہے گزرے کل کی یادیں ...

    مزید پڑھیے

    اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں

    اب نہیں درد چھپانے کا قرینہ مجھ میں کیا کروں بس گیا اک شخص انوکھا مجھ میں اس کی آنکھیں مجھے محصور کئے رکھتی ہیں وہ جو اک شخص ہے مدت سے صف آرا مجھ میں اپنی مٹی سے رہی ایسی رفاقت مجھ کو پھیلتا جاتا ہے اک ریت کا صحرا مجھ میں میرے چہرے پہ اگر کرب کے آثار نہیں یہ نہ سمجھو کہ نہیں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    عمر بھر کچھ خواب دل پر دستکیں دیتے رہے

    عمر بھر کچھ خواب دل پر دستکیں دیتے رہے ہم کہ مجبور وفا تھے آہٹیں سنتے رہے جب تخیل استعاروں میں ڈھلا تو شہر میں دیر تک حسن بیاں کے تذکرے ہوتے رہے دیپ یادوں کے جلے تو ایک بے چینی رہی اتنی بے چینی کہ شب بھر کروٹیں لیتے رہے ایک الجھن رات دن پلتی رہی دل میں کہ ہم کس نگر کی خاک تھے کس ...

    مزید پڑھیے

    کیا کہیں کیا حسن کا عالم رہا

    کیا کہیں کیا حسن کا عالم رہا وہ رہے اور آئنہ مدھم رہا زندگی سے زندگی روٹھی رہی آدمی سے آدمی برہم رہا رہ گئی ہیں اب وہاں پرچھائیاں اک زمانے میں جہاں آدم رہا پاس رہ کر بھی رہے ہم دور دور اس طرح اس کا مرا سنگم رہا تو مرے افکار میں ہر پل رہی میں ترے احساس میں ہر دم رہا جی رہے تھے ...

    مزید پڑھیے

    صبر و ضبط کی جاناں داستاں تو میں بھی ہوں داستاں تو تم بھی ہو

    صبر و ضبط کی جاناں داستاں تو میں بھی ہوں داستاں تو تم بھی ہو اپنی اپنی عظمت کا آسماں تو میں بھی ہوں آسماں تو تم بھی ہو ساحلوں کی دوری سے ساونوں کے موسم میں کیسے ڈوب سکتے تھے بے قرار موسم میں بادباں تو میں بھی ہوں بادباں تو تم بھی ہو جسم اپنے فانی ہیں جان اپنی فانی ہے فانی ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں

    کم کم رہنا غم کے سرخ جزیروں میں یہ جو سرخ جزیرے ہیں سب خونیں ہیں کم کم بہنا دل دریا کے دھارے پر یہ جو غم کے دھارے ہیں سب خونیں ہیں ہجر کی پہلی شام ہو یا ہو وصل کا دن جتنے منظر نامے ہیں سب خونیں ہیں ہر کوچے میں ارمانوں کا خون ہوا شہر کے جتنے رستے ہیں سب خونیں ہیں ایک وصیت میں نے ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیا سوچ کے گھر تک پہنچا

    جانے کیا سوچ کے گھر تک پہنچا میں کہ معراج ہنر تک پہنچا اپنے کشکول میں حسرت لے کر اک گداگر ترے در تک پہنچا درد اٹھا تھا مرے پہلو میں آخر کار جگر تک پہنچا اک تباہی مرے دل پر اتری اک تماشا مرے گھر تک پہنچا اک دعا میرے لبوں تک آئی اک اثر اس کی نظر تک پہنچا جتنی آہیں مرے دل سے ...

    مزید پڑھیے

    کیسا لمحہ آن پڑا ہے

    کیسا لمحہ آن پڑا ہے ہنستا گھر ویران پڑا ہے بستر پر کچھ پھول پڑے ہیں آنگن میں گلدان پڑا ہے کرچی کرچی سپنے سارے دل میں اک ارمان پڑا ہے لوگ چلے ہیں صحراؤں کو اور نگر سنسان پڑا ہے اک جانب اک نظم کے ٹکڑے اک جانب عنوان پڑا ہے

    مزید پڑھیے