Balwan Singh Azar

بلوان سنگھ آذر

بلوان سنگھ آذر کی غزل

    بے خودی ساتھ ہے مزے میں ہوں

    بے خودی ساتھ ہے مزے میں ہوں اپنی ہی ذات کے نشے میں ہوں عکس جیسے ہو کوئی دریا میں ایسے پانی کے بلبلے میں ہوں تو بھلے میرا اعتبار نہ کر زندگی میں ترے کہے میں ہوں کوئی منزل کبھی نہیں آئی راستے میں تھا راستے میں ہوں میری وسعت عجیب ہے آذرؔ پھیل کر بھی میں دائرے میں ہوں

    مزید پڑھیے

    پاؤں میرا پھر پڑا ہے دشت میں

    پاؤں میرا پھر پڑا ہے دشت میں وہ ہی آوارہ ہوا ہے دشت میں اب مری تنہائی کم ہو جائے گی اک بگولہ مل گیا ہے دشت میں بستیوں سے بھی زیادہ شور ہے کون اتنا چیختا ہے دشت میں کس طرح خود کو بچائے گا کوئی ایک نادیدہ بلا ہے دشت میں خاک اور کچھ زرد پتوں کے سوا تجھ کو آذرؔ کیا ملا ہے دشت میں

    مزید پڑھیے

    جب کوئی ٹیس دل دکھاتی ہے

    جب کوئی ٹیس دل دکھاتی ہے نبض کچھ دیر رک سی جاتی ہے آج آوارگی سے کہہ دوں گا ایک چوکھٹ مجھے بلاتی ہے گھپ اندھیرے کا فائدہ لے کر اوس پھولوں پہ بیٹھ جاتی ہے کل تلک تو ورق ہی اڑتے تھے اب ہوا حرف بھی اڑاتی ہے جاگتے ہیں سبھی شجر آذرؔ دشت میں کس کو نیند آتی ہے

    مزید پڑھیے

    گر مجھے میری ذات مل جائے

    گر مجھے میری ذات مل جائے اک نئی کائنات مل جائے خواب ہے اس سے بات کرنے کا کوئی خوابوں کی رات مل جائے غم زدہ لوگ سوچتے ہوں گے زندگی سے نجات مل جائے کوئی کچھ بھی بدل نہیں سکتا جس کو جیسی حیات مل جائے پوچھنا چاند کا پتا آذرؔ جب اکیلے میں رات مل جائے

    مزید پڑھیے

    رات دن اک بے بسی زندہ رہی

    رات دن اک بے بسی زندہ رہی میری آنکھوں میں نمی زندہ رہی ہار جائے گی یقیناً تیرگی گر مسلسل روشنی زندہ رہی پہلے سناٹوں میں وہ موجود تھی شور میں بھی خامشی زندہ رہی ذکر ہوگا اس کا بھی صدیوں تلک کیسے کیسے یہ صدی زندہ رہی درد کو آذرؔ دعا میں کیوں نہ دوں درد ہی سے شاعری زندہ رہی

    مزید پڑھیے

    کیوں چھپاتے ہو کدھر جانا ہے

    کیوں چھپاتے ہو کدھر جانا ہے دشت سے کہہ دو کہ گھر جانا ہے مجھ میں بھی پہلے اٹھیں گے طوفاں پھر خموشی کو پسر جانا ہے کوئی کہتا ہے کہ میں ملبہ ہوں کسی نے مجھ کو کھنڈر جانا ہے خاک تو خاک پہ آ بیٹھے گی خاک کو اڑ کے کدھر جانا ہے اس کی نادانی تو دیکھو آذرؔ پھر سے دیوار کو در جانا ہے

    مزید پڑھیے

    سچ ہے یا پھر مغالطہ ہے مجھے

    سچ ہے یا پھر مغالطہ ہے مجھے کوئی آواز دے رہا ہے مجھے ایک امید جاگ اٹھتی ہے آسماں جب بھی دیکھتا ہے مجھے چھین لیتا ہے میرے سارے گہر جب سمندر کھنگالتا ہے مجھے یہ مراسم بہت پرانے ہیں دشت صدیوں سے جانتا ہے مجھے میری جانب بھی آ ذرا فرصت اپنے بارے میں سوچنا ہے مجھے

    مزید پڑھیے

    حادثہ ہوتا رہا ہے مجھ میں

    حادثہ ہوتا رہا ہے مجھ میں بارہا کوئی مرا ہے مجھ میں میری مٹی کو پتہ ہے سب کچھ کون کب کتنا چلا ہے مجھ میں ختم ہوتا ہی نہیں میرا سفر کوئی تھک ہار گیا ہے مجھ میں اپنے اندر میں سمیٹوں کیا کیا سارا گھر بکھرا پڑا ہے مجھ میں کشتیاں ڈوب رہی ہیں آذرؔ ایک طوفان اٹھا ہے مجھ میں

    مزید پڑھیے

    مرے سفر میں ہی کیوں یہ عذاب آتے ہیں

    مرے سفر میں ہی کیوں یہ عذاب آتے ہیں جدھر بھی جاؤں ادھر ہی سراب آتے ہیں تلاش ہے مجھے اب تو انہیں فضاؤں کی جہاں خزاں میں بھی اکثر گلاب آتے ہیں کسی کو ملتا نہیں اک چراغ میلوں تک کسی کی بستی میں سو آفتاب آتے ہیں نہ نکلا کیجیئے راتوں کو گھر سے آپ کبھی سڑک پہ رات میں خانہ خراب آتے ...

    مزید پڑھیے

    دو قدم ساتھ کیا چلا رستہ

    دو قدم ساتھ کیا چلا رستہ بن گیا میرا ہم نوا رستہ بچھڑا اپنے مسافروں سے جب کتنا مایوس ہو گیا رستہ سب ہیں منزل کی جستجو میں یہاں کون دیکھے برا بھلا رستہ ایسی ہونے لگی تھکن اس کو دن کے ڈھلتے ہی سو گیا رستہ پھر نئی کائنات دیکھوں گا میرے اندر اگر ملا رستہ تو بڑا خوش نصیب ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2