Balwan Singh Azar

بلوان سنگھ آذر

بلوان سنگھ آذر کے تمام مواد

13 غزل (Ghazal)

    بے خودی ساتھ ہے مزے میں ہوں

    بے خودی ساتھ ہے مزے میں ہوں اپنی ہی ذات کے نشے میں ہوں عکس جیسے ہو کوئی دریا میں ایسے پانی کے بلبلے میں ہوں تو بھلے میرا اعتبار نہ کر زندگی میں ترے کہے میں ہوں کوئی منزل کبھی نہیں آئی راستے میں تھا راستے میں ہوں میری وسعت عجیب ہے آذرؔ پھیل کر بھی میں دائرے میں ہوں

    مزید پڑھیے

    پاؤں میرا پھر پڑا ہے دشت میں

    پاؤں میرا پھر پڑا ہے دشت میں وہ ہی آوارہ ہوا ہے دشت میں اب مری تنہائی کم ہو جائے گی اک بگولہ مل گیا ہے دشت میں بستیوں سے بھی زیادہ شور ہے کون اتنا چیختا ہے دشت میں کس طرح خود کو بچائے گا کوئی ایک نادیدہ بلا ہے دشت میں خاک اور کچھ زرد پتوں کے سوا تجھ کو آذرؔ کیا ملا ہے دشت میں

    مزید پڑھیے

    جب کوئی ٹیس دل دکھاتی ہے

    جب کوئی ٹیس دل دکھاتی ہے نبض کچھ دیر رک سی جاتی ہے آج آوارگی سے کہہ دوں گا ایک چوکھٹ مجھے بلاتی ہے گھپ اندھیرے کا فائدہ لے کر اوس پھولوں پہ بیٹھ جاتی ہے کل تلک تو ورق ہی اڑتے تھے اب ہوا حرف بھی اڑاتی ہے جاگتے ہیں سبھی شجر آذرؔ دشت میں کس کو نیند آتی ہے

    مزید پڑھیے

    گر مجھے میری ذات مل جائے

    گر مجھے میری ذات مل جائے اک نئی کائنات مل جائے خواب ہے اس سے بات کرنے کا کوئی خوابوں کی رات مل جائے غم زدہ لوگ سوچتے ہوں گے زندگی سے نجات مل جائے کوئی کچھ بھی بدل نہیں سکتا جس کو جیسی حیات مل جائے پوچھنا چاند کا پتا آذرؔ جب اکیلے میں رات مل جائے

    مزید پڑھیے

    رات دن اک بے بسی زندہ رہی

    رات دن اک بے بسی زندہ رہی میری آنکھوں میں نمی زندہ رہی ہار جائے گی یقیناً تیرگی گر مسلسل روشنی زندہ رہی پہلے سناٹوں میں وہ موجود تھی شور میں بھی خامشی زندہ رہی ذکر ہوگا اس کا بھی صدیوں تلک کیسے کیسے یہ صدی زندہ رہی درد کو آذرؔ دعا میں کیوں نہ دوں درد ہی سے شاعری زندہ رہی

    مزید پڑھیے

تمام