رات دن اک بے بسی زندہ رہی
رات دن اک بے بسی زندہ رہی
میری آنکھوں میں نمی زندہ رہی
ہار جائے گی یقیناً تیرگی
گر مسلسل روشنی زندہ رہی
پہلے سناٹوں میں وہ موجود تھی
شور میں بھی خامشی زندہ رہی
ذکر ہوگا اس کا بھی صدیوں تلک
کیسے کیسے یہ صدی زندہ رہی
درد کو آذرؔ دعا میں کیوں نہ دوں
درد ہی سے شاعری زندہ رہی