Bakul Dev

بکل دیو

ہندوستان کی نئی نسل کے شاعر

A new age Indian poet

بکل دیو کی غزل

    ترا لحظہ وہی تلوار جیسا تھا

    ترا لحظہ وہی تلوار جیسا تھا مری گردن میں خم ہر بار جیسا تھا اتر جاتا تو رسوائی بہت ہوتی کہ سر کا بوجھ بھی دستار جیسا تھا تراشی ہیں غم دوراں نے تقدیریں یہ خنجر بھی کسی اوزار جیسا تھا ہنسی بھی اشتہاروں سی چمکتی تھی وہ چہرہ تو کسی اخبار جیسا تھا بہت رشتے تھے سب کی قیمتیں طے ...

    مزید پڑھیے

    کون کہتا ہے ٹھہر جانا ہے

    کون کہتا ہے ٹھہر جانا ہے رنگ چڑھنا ہے اتر جانا ہے زندگی سے رہی صحبت برسوں جاتے جاتے ہی اثر جانا ہے ٹوٹنے کو ہیں صدائیں میری خامشی تجھ کو بکھر جانا ہے خواب ندی سا گزر جائے گا دشت آنکھوں میں ٹھہر جانا ہے کوئی دن ہم بھی نہ یاد آئیں گے آخرش تو بھی بسر جانا ہے کوئی دریا نہ سمندر نہ ...

    مزید پڑھیے

    کم نہ ہوگی یہ سرگرانی کیا

    کم نہ ہوگی یہ سرگرانی کیا یوں ہی گزرے گی زندگانی کیا اشک پہلے کہاں نکلتے تھے ہو گئی آگ پانی پانی کیا سارے کردار ایک ہی صف میں ختم ہونے کو ہے کہانی کیا آئنہ میں ہے پھر وہی صورت یوں ہی ہوتی ہے ترجمانی کیا ربط کتنا ہے دو کناروں میں کوئی دریا ہے درمیانی کیا مسکراہٹ پہ حیرتی کی ...

    مزید پڑھیے

    ہوئے ہم بے سر و سامان لیکن

    ہوئے ہم بے سر و سامان لیکن سفر کو کر لیا آسان لیکن کنارے زد میں آنا چاہتے ہیں اترنے کو ہے اب طوفان لیکن بہت جی چاہتا ہے کھل کے رو لیں لہک اٹھے نہ غم کا دھان لیکن تعلق ترک تو کر لیں سبھی سے بھلے لگتے ہیں کچھ نقصان لیکن توازن آ چلا ہے ذہن و دل میں شکستہ حال ہے میزان لیکن بہت سے ...

    مزید پڑھیے

    مرے کچھ بھی کہے کو کاٹتا ہے

    مرے کچھ بھی کہے کو کاٹتا ہے وہ اپنے دائرے کو کاٹتا ہے میں اس بازار کے قابل نہیں ہوں یہاں کھوٹا کھرے کو کاٹتا ہے اداس آنکھیں پہنتی ہیں ہنسی کو پھر آنسو قہقہے کو کاٹتا ہے نہ مجھ کو ہیں قبول اپنی خطائیں نہ وہ اپنے لکھے کو کاٹتا ہے توجہ چاہتا ہے غم پرانا سو رہ رہ کر نئے کو کاٹتا ...

    مزید پڑھیے

    چال اپنی ادا سے چلتے ہیں

    چال اپنی ادا سے چلتے ہیں ہم کہاں کج روی سے ٹلتے ہیں زندگی بے رخی سے پیش نہ آ تجھ پہ احساں مرے نکلتے ہیں کارداں ہیں بلا کے سب چہرے آئنہ کو ہنر سے چھلتے ہیں کوئی آتش فشاں ہے سینے میں اشک مثل شرر نکلتے ہیں اس کے طرز سخن کے مارے لوگ اپنا لہجہ کہاں بدلتے ہیں آج سو لوں کہ ہے سہولت ...

    مزید پڑھیے

    حادثات اب کے سفر میں نئے ڈھب سے آئے

    حادثات اب کے سفر میں نئے ڈھب سے آئے کشتیاں بھی نہیں ڈوبی نہ کنارے آئے بعد مدت یہ جلا کس کے ہنر نے بخشی بعد مدت مرے آئینے میں چہرہ آئے اشک پلکوں کی منڈیروں پہ تمنا دل میں دن ڈھلے لوٹ کے شاخوں پہ پرندے آئے سارے کرداروں سے جی کھول کے باتیں کر لوں موڑ کیسا مرے قصے میں نہ جانے ...

    مزید پڑھیے

    بات بگڑی ہوئی بنی سی رہی

    بات بگڑی ہوئی بنی سی رہی جاں نہیں نکلی جانکنی سی رہی بات کھنچتی چلی گئی دل سے عمر بھر پھر تنا تنی سی رہی حسن شب صبح دم ڈھلا لیکن پیشتر اس کے چاندنی سی رہی بحث ہم کو نہ تھی مناظر سے یوں تھا بینائی سے ٹھنی سی رہی اس کا رد عمل تھا خنجر سا عشق کہنے کو تھا انی سی رہی سمت دنیا کے ہم ...

    مزید پڑھیے

    دل سے بے سود اور جاں سے خراب

    دل سے بے سود اور جاں سے خراب ہو رہا ہوں کہاں کہاں سے خراب غم کی دہلیز ہے بھلی کتنی کوئی اٹھتا نہیں یہاں سے خراب میں مرا عکس اور آئینہ یہ نظارہ تھا درمیاں سے خراب خود کو تعمیر کرتے ظالم میں ہو گیا ہوں یہاں وہاں سے خراب روشنی اک حقیر تارے کی آ گئی ہو کے کہکشاں سے خراب زیر لب رکھ ...

    مزید پڑھیے

    سماعت کے لیے اک امتحاں ہے

    سماعت کے لیے اک امتحاں ہے خموشی ان دنوں مثل بیاں ہے سفر اپنے ہی بھیتر کر رہا ہوں مرا ٹھہراؤ مدت سے رواں ہے ہوس شامل ہے تھوڑی سی دعا میں ابھی اس لو میں ہلکا سا دھواں ہے نیا اک خواب دیکھیں اور روئیں اب اتنی تاب آنکھوں میں کہاں ہے اڑا دیتی ہے اپنی خاک جب تب زمیں کی جستجو بھی آسماں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3