Bakul Dev

بکل دیو

ہندوستان کی نئی نسل کے شاعر

A new age Indian poet

بکل دیو کی غزل

    ہمیں راس آنی ہے راہوں کی گٹھری

    ہمیں راس آنی ہے راہوں کی گٹھری رکھو پاس اپنی پناہوں کی گٹھری بدل جائے کاش اس حسیں مرحلے پر ہماری تمہاری گناہوں کی گٹھری محبت کی راہیں تھیں ہموار لیکن ہمیں ڈھو نہ پائے نباہوں کی گٹھری تکلف کے سامان بکھرے تھے باہم سو باندھے رہے ہم بھی بانہوں کی گٹھری اجالے کے ہیں ان دنوں دام ...

    مزید پڑھیے

    یکایک عکس دھندلانے لگے ہیں

    یکایک عکس دھندلانے لگے ہیں نظر میں آئنہ آنے لگے ہیں زمیں ہے منتظر فصل ضیا کی فلک پر نور کے دانے لگے ہیں خزاں آنے سے پہلے بانچ لینا درختوں پر جو افسانے لگے ہیں ہمیں اس طرح ہی ہونا تھا آباد ہمارے ساتھ ویرانے لگے ہیں فصیل دل گرا تو دوں میں لیکن اسی دیوار سے شانے لگے ہیں کبھی ...

    مزید پڑھیے

    اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے

    اب اجڑنے کے ہم نہ بسنے کے کٹ گئے جال سارے پھنسنے کے تجربوں میں نہ زہر ضائع کر سیکھ آداب پہلے ڈسنے کے اس سے کہیو جو خود میں ڈوبا ہے تجھ پہ بادل نہیں برسنے کے ملنا جلنا ابھی بھی ہے لیکن ہاتھ سے ہاتھ اب نہ مسنے کے نقش ثانی ہیں جھلملاتے سراب نقش اول تھے پاؤں دھنسنے کے ایسا ویراں ...

    مزید پڑھیے

    جان لے لے نہ ضبط آہ کہیں

    جان لے لے نہ ضبط آہ کہیں رو لیا کیجے گاہ گاہ کہیں ابتدائی جو ایک خدشہ تھا کھل نہ جائے اسی پہ راہ کہیں ہونے والی ہے یہ فضا رنگین ابر ہونے لگے سیاہ کہیں یہ سہولت ہے زندگی کو بہت ربط ہوتا رہے نباہ کہیں اور کچھ دیر غم نظر میں رکھ کیا خبر مل ہی جائے تھاہ کہیں حیف سر سے گزر گیا ...

    مزید پڑھیے

    گو ذرا تیز شعاعیں تھیں ذرا مند تھے ہم

    گو ذرا تیز شعاعیں تھیں ذرا مند تھے ہم تو نے دیکھا ہی نہیں غور سے ہر چند تھے ہم ہم جو ٹوٹے ہیں بتا ہار بھلا کس کی ہوئی زندگی تیری اٹھائی ہوئی سوگند تھے ہم اور بیمار ہوئے جاتے ہیں خاموشی سے ایک آزار سخن تھا تو تنومند تھے ہم تیرے خط دیکھ کے اکثر یہ خیال آتا رہا ریشمیں ریشمیں تحریر ...

    مزید پڑھیے

    بارشوں میں اب کے یاد آئے بہت

    بارشوں میں اب کے یاد آئے بہت ابر جو برسے نہیں چھائے بہت جانے کس کے دھیان میں ڈوبا تھا خواب نیند نے کنگن تو کھنکائے بہت پھر ہوا یوں لگ گیا جی عشق میں پہلے پہلے ہم بھی گھبرائے بہت منزلوں پر بار تھا رخت سفر اور ہم آنسو بچا لائے بہت مجھ سے میرا رنگ مانگے ہے دھنک رشک میں یوں بھی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    جو ہے چشمہ اسے سراب کرو

    جو ہے چشمہ اسے سراب کرو شہر تشنہ میں انقلاب کرو مسکرانے کا فن تو بعد کا ہے پہلے ساعت کا انتخاب کرو اب کے تعبیر مسئلہ نہ رہے یہ جو دنیا ہے اس کو خواب کرو اور پکنے دو عشق کی مٹی پار عجلت میں مت چناب کرو عہد نو کے عجب تقاضے ہیں جو ہے خوشبو اسے گلاب کرو یوں خوشی کی ہوس نہ جائے ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس کی یاد کا دل پر رفو تھا

    یہ کس کی یاد کا دل پر رفو تھا کہ بہہ جانے پہ آمادہ لہو تھا چمکتے ہیں جو پتھر سے یہاں اب انہیں پلکوں میں سیل آب جو تھا کشش تجھ سی نہ تھی تیرے غموں میں لب و لہجہ مگر ہاں ہو بہ ہو تھا اجالے سی کوئی شے بچ گئی تھی اس اک لمحے میں جب میں تھا نہ تو تھا تھمی اک نبض تو عقدہ کھلا یہ خموشی کا ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں دیکھا نہ کر اڑتی نظر سے

    ہمیں دیکھا نہ کر اڑتی نظر سے امیدوں کے نکل آتے ہیں پر سے اب ان کی راکھ پلکوں پر جمی ہے گھڑی بھر خواب چمکے تھے شرر سے بچانے میں لگی ہے خلق مجھ کو میں ضائع ہو رہا ہوں اس ہنر سے وہ لہجہ ہائے دریائے سخن میں مسلسل بنتے رہتے ہیں بھنور سے سمندر ہے کوئی آنکھوں میں شاید کناروں پر چمکتے ...

    مزید پڑھیے

    بار دیگر یہ فلسفے دیکھوں

    بار دیگر یہ فلسفے دیکھوں زخم پھر سے ہرے بھرے دیکھوں یہ بصیرت عجب بصیرت ہے آئنوں میں بھی آئنے دیکھوں زاویوں سے اگر نجات ملے سارے منظر گھلے ملے دیکھوں نظم کرنا ہے بے حسابی کو لفظ سارے نپے تلے دیکھوں آخر آخر جو داستاں نہ بنے اول اول وہ واقعے دیکھوں دوریاں دھند بن کے بکھری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3