Bahadur Shah Zafar

بہادر شاہ ظفر

آخری مغل بادشاہ ۔ غالب اور ذوق کے ہم عصر

Last Mughal Emperor and contemporary of Ghalib and Zauq.

بہادر شاہ ظفر کی غزل

    پان کی سرخی نہیں لب پر بت خوں خوار کے

    پان کی سرخی نہیں لب پر بت خوں خوار کے لگ گیا ہے خون عاشق منہ کو اس تلوار کے خال عارض دیکھ لو حلقے میں زلف یار کے مار مہرہ گر نہ دیکھا ہو دہن میں مار کے انجم تاباں فلک پر جانتی ہے جس کو خلق کچھ شرارے ہیں وہ میری آہ آتش بار کے طوبی جنت سے اس کو کام کیا ہے حوروش جو کہ ہیں آسودہ سائے ...

    مزید پڑھیے

    نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا

    نہ اس کا بھید یاری سے نہ عیاری سے ہاتھ آیا خدا آگاہ ہے دل کی خبرداری سے ہاتھ آیا نہ ہوں جن کے ٹھکانے ہوش وہ منزل کو کیا پہنچے کہ رستہ ہاتھ آیا جس کی ہشیاری سے ہاتھ آیا ہوا حق میں ہمارے کیوں ستم گر آسماں اتنا کوئی پوچھے کہ ظالم کیا ستم گاری سے ہاتھ آیا اگرچہ مال دنیا ہاتھ بھی آیا ...

    مزید پڑھیے

    کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی

    کافر تجھے اللہ نے صورت تو پری دی پر حیف ترے دل میں محبت نہ ذری دی دی تو نے مجھے سلطنت بحر و بر اے عشق ہونٹوں کو جو خشکی مری آنکھوں کو تری دی خال لب شیریں کا دیا بوسہ کب اس نے اک چاٹ لگانے کو مرے نیشکری دی کافر ترے سوائے سر زلف نے مجھ کو کیا کیا نہ پریشانی و آشفتہ سری دی محنت سے ہے ...

    مزید پڑھیے

    رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا

    رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا پھر کے برج سنبلہ میں آفتاب آ جائے گا تیرا احساں ہوگا قاصد گر شتاب آ جائے گا صبر مجھ کو دیکھ کر خط کا جواب آ جائے گا ہو نہ بیتاب اتنا گر اس کا عتاب آ جائے گا تو غضب میں اے دل خانہ خراب آ جائے گا اس قدر رونا نہیں بہتر بس اب اشکوں کو روک ورنہ طوفاں ...

    مزید پڑھیے

    واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے

    واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے یہ جدائی نہیں تو پھر کیا ہے ہو ملاقات تو صفائی سے اور صفائی نہیں تو پھر کیا ہے دل ربا کو ہے دل ربائی شرط دل ربائی نہیں تو پھر کیا ہے گلہ ہوتا ہے آشنائی میں آشنائی نہیں تو پھر کیا ہے اللہ اللہ رے ان بتوں کا غرور یہ خدائی نہیں تو پھر کیا ہے موت آئی تو ...

    مزید پڑھیے

    اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل

    اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل دنیا ہے چل چلاؤ کا رستہ سنبھل کے چل کم ظرف پر غرور ذرا اپنا ظرف دیکھ مانند جوش غم نہ زیادہ ابل کے چل فرصت ہے اک صدا کی یہاں سوز دل کے ساتھ اس پر سپند وار نہ اتنا اچھل کے چل یہ غول وش ہیں ان کو سمجھ تو نہ رہ نما سائے سے بچ کے اہل فریب و دغل کے ...

    مزید پڑھیے

    کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کیں سے دور

    کیونکر نہ خاکسار رہیں اہل کیں سے دور دیکھو زمیں فلک سے فلک ہے زمیں سے دور پروانہ وصل شمع پہ دیتا ہے اپنی جاں کیونکر رہے دل اس کے رخ آتشیں سے دور مضمون وصل و ہجر جو نامہ میں ہے رقم ہے حرف بھی کہیں سے ملے اور کہیں سے دور گو تیر بے گماں ہے مرے پاس پر ابھی جائے نکل کے سینۂ چرخ بریں سے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے

    ہوا میں پھرتے ہو کیا حرص اور ہوا کے لیے غرور چھوڑ دو اے غافلو خدا کے لیے گرا دیا ہے ہمیں کس نے چاہ الفت میں ہم آپ ڈوبے کسی اپنے آشنا کے لیے جہاں میں چاہیئے ایوان و قصر شاہوں کو یہ ایک گنبد گردوں ہے بس گدا کے لیے وہ آئینہ ہے کہ جس کو ہے حاجت سیماب اک اضطراب ہے کافی دل صفا کے ...

    مزید پڑھیے

    نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل

    نہ دو دشنام ہم کو اتنی بد خوئی سے کیا حاصل تمہیں دینا ہی ہوگا بوسہ خم روئی سے کیا حاصل دل آزاری نے تیری کر دیا بالکل مجھے بیدل نہ کر اب میری دل جوئی کہ دل جوئی سے کیا حاصل نہ جب تک چاک ہو دل پھانس کب دل کی نکلتی ہے جہاں ہو کام خنجر کا وہاں سوئی سے کیا حاصل برائی یا بھلائی گو ہے ...

    مزید پڑھیے

    نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا

    نہیں عشق میں اس کا تو رنج ہمیں کہ قرار و شکیب ذرا نہ رہا غم عشق تو اپنا رفیق رہا کوئی اور بلا سے رہا نہ رہا دیا اپنی خودی کو جو ہم نے اٹھا وہ جو پردہ سا بیچ میں تھا نہ رہا رہے پردے میں اب نہ وہ پردہ نشیں کوئی دوسرا اس کے سوا نہ رہا نہ تھی حال کی جب ہمیں خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5