رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا

رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا
پھر کے برج سنبلہ میں آفتاب آ جائے گا


تیرا احساں ہوگا قاصد گر شتاب آ جائے گا
صبر مجھ کو دیکھ کر خط کا جواب آ جائے گا


ہو نہ بیتاب اتنا گر اس کا عتاب آ جائے گا
تو غضب میں اے دل خانہ خراب آ جائے گا


اس قدر رونا نہیں بہتر بس اب اشکوں کو روک
ورنہ طوفاں دیکھ اے چشم پر آب آ جائے گا


پیش ہووے گا اگر تیرے گناہوں کا حساب
تنگ ظالم عرصۂ روز حساب آ جائے گا


دیکھ کر دست ستم میں تیری تیغ آب دار
میرے ہر زخم جگر کے منہ میں آب آ جائے گا


اپنی چشم مست کی گردش نہ اے ساقی دکھا
دیکھ چکر میں ابھی جام شراب آ جائے گا


خوب ہوگا ہاں جو سینہ سے نکل جائے گا تو
چین مجھ کو اے دل پر اضطراب آ جائے گا


اے ظفرؔ اٹھ جائے گا جب پردہ شرم و حجاب
سامنے وہ یار میرے بے حجاب آ جائے گا