Aziz Tamannai

عزیز تمنائی

  • 1926

عزیز تمنائی کی نظم

    مسافر

    وہ اچانک چل دیا گویا سفر تھا مختصر زندگی بھر جو سفر کرتا رہا چلتا رہا چھاؤں میں افلاک کی پلتا رہا ڈھلتا رہا پاس جو پونجی اجالوں کی تھی سب کچھ بانٹ کر راہ کے بے مایہ ذروں کو بنا کر آفتاب خود سے لا پروا زمانے کی نظر سے بے نیاز زہد سے فطری لگاؤ دل میں توقیر حجاز جانے کیوں اس کو ...

    مزید پڑھیے

    مجسمہ

    میں ایک پتھر میں ایک بے جان سرد پتھر جمود بے گانگی کا مظہر ازل سے حد نظر کو تکتی ہوئی نگاہیں خلا میں لٹکی ہوئی یہ باہیں زمیں مجھے ساتھ لے کے دشوار منزلیں لاکھوں گھوم آئی کروڑوں راہوں کو چوم آئی فلک کے ساحر نے کتنے افسون مجھ پہ پھونکے مرے پس و پیش ٹمٹماتے دیے جلائے دھوئیں کے گہرے ...

    مزید پڑھیے

    سفر مدام سفر

    زمانے کے کوہ گراں کی سرنگوں میں جلتی ہوئی مشعلیں لے کے شام و سحر ڈھونڈھتا ہوں کہ کوئی کرن کوئی روزن کوئی موج باد تازہ جو مل جائے میں ماورائے نظر کی جھلک پا سکوں اس بھیانک اندھیرے میں گھٹتے ہوئے جی کو بہلا سکوں میں جب پہلی بار ان سرنگوں میں داخل ہوا تھا مجھے کیا خبر تھی یہاں سے ...

    مزید پڑھیے

    تسمۂ پا

    کب سے یہ بار گراں اپنے کاندھوں پہ اٹھائے ہوئے تنہا تنہا گشت کرتا ہوں میں حیراں حیراں میں نے ہر چند چھڑانا چاہا اور مضبوط ہوئی اس کی گلو گیر گرفت اور سنگین ہوا جسم جواں پر پہرہ سامنے فاصلۂ لامتناہی دل میں سیکڑوں من چلے ارمانوں کے رنگین چراغ جن کی خوشبو سے معطر ہے دماغ جن سے ممکن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2