مسافر
وہ اچانک چل دیا گویا سفر تھا مختصر زندگی بھر جو سفر کرتا رہا چلتا رہا چھاؤں میں افلاک کی پلتا رہا ڈھلتا رہا پاس جو پونجی اجالوں کی تھی سب کچھ بانٹ کر راہ کے بے مایہ ذروں کو بنا کر آفتاب خود سے لا پروا زمانے کی نظر سے بے نیاز زہد سے فطری لگاؤ دل میں توقیر حجاز جانے کیوں اس کو ...