Aziz Tamannai

عزیز تمنائی

  • 1926

عزیز تمنائی کی غزل

    ہر ایک رنگ میں یوں ڈوب کر نکھرتے رہے

    ہر ایک رنگ میں یوں ڈوب کر نکھرتے رہے خطوط نقش مصور میں رنگ بھرتے رہے خدا بچائے بگولوں کی زد میں آئے ہیں وہ برگ سبز جو موج ہوا سے ڈرتے رہے انہیں کے پاؤں سے لپٹی ہوئی ہے موج حیات جو بے کنار سمندر کے پار اترتے رہے کہاں تھی جرأت نظارۂ جمال سحر اگرچہ گیسوئے شب رات بھر سنورتے ...

    مزید پڑھیے

    جس کو چلنا ہے چلے رخت سفر باندھے ہوئے

    جس کو چلنا ہے چلے رخت سفر باندھے ہوئے ہم جہاں گشت ہیں اٹھے ہیں کمر باندھے ہوئے یوں تو ہر گام کئی دام ہیں دشت شب میں ہم بھی آئے ہیں پر و بال سحر باندھے ہوئے سوئے افلاک سفیران دعا جائے ہیں ڈر ہے لوٹ آئیں نہ زنجیر اثر باندھے ہوئے اہل زنداں ہیں ابھی منتظر فصل بہار شاخ فردا سے خیال ...

    مزید پڑھیے

    افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید

    افق کے اس پار کر رہا ہے کوئی مرا انتظار شاید اسی کی جانب چلی ہے شام و سحر کی یہ رہ گزار شاید قفس میں دور و دراز سے بھینی بھینی خوشبو سی آ رہی ہے چمن چمن ہم کو ڈھونڈتی ہوگی موج فصل بہار شاید ہزار بار آزما چکا ہے مگر ابھی آزما رہا ہے ابھی زمانے کو آدمی کا نہیں ہے کچھ اعتبار شاید نہ ...

    مزید پڑھیے

    خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی

    خلوت ہوئی ہے انجمن آرا کبھی کبھی خاموشیوں نے ہم کو پکارا کبھی کبھی لے دے کے ایک سایۂ دیوار آرزو دیتا ہے رہروؤں کو سہارا کبھی کبھی کس درجہ دل فریب ہیں جھونکے امید کے یہ زندگی ہوئی ہے گوارا کبھی کبھی سونپا ہے ہم نے جس کو ہر اک لمحۂ حیات اے کاش ہو سکے وہ ہمارا کبھی کبھی اے موج ...

    مزید پڑھیے

    زندگی یوں تو گزر جاتی ہے آرام کے ساتھ

    زندگی یوں تو گزر جاتی ہے آرام کے ساتھ کشمکش سی ہے مگر گردش ایام کے ساتھ رفعتیں دیکھتی رہ جاتی ہیں اس کی پرواز وہ تصور کہ ہے وابستہ ترے نام کے ساتھ مل ہی جائے گی کبھی منزل مقصود سحر شرط یہ ہے کہ سفر کرتے رہو شام کے ساتھ دام ہستی ہے خوش آئند بھی دل کش بھی مگر اڑتے جاتے ہیں گرفتار ...

    مزید پڑھیے

    اسی نے ساتھ دیا زندگی کی راہوں میں

    اسی نے ساتھ دیا زندگی کی راہوں میں وہ اک چراغ جو جلتا رہا نگاہوں میں شمیم گل سے سبک تر کرن سے نازک تر کوئی لطیف سی شے آ گئی ہے باہوں میں یہ کس کی حشر خرامی کی بات اٹھی ہے ہمارا نام پکارا گیا گواہوں میں خبر نہ تھی کہ وہی اپنی یوں خبر لیں گے شمار کرتے تھے ہم جن کو خیر خواہوں ...

    مزید پڑھیے

    یوں ہی کٹے نہ رہ گزر مختصر کہیں

    یوں ہی کٹے نہ رہ گزر مختصر کہیں پڑتے ہیں پائے شوق کہیں اور نظر کہیں موہوم و مختصر سہی پیش نظر تو ہے دیکھا کسی نے خواب یہ بار دگر کہیں مائل بہ جستجو ہیں ابھی اہل اشتیاق دنیائیں اور بھی ہیں ورائے نظر کہیں باقی ابھی قفس میں ہے اہل قفس کی یاد بکھرے پڑے ہیں بال کہیں اور پر کہیں اب ...

    مزید پڑھیے

    پاتے ہیں کچھ کمی سی تصویر زندگی میں

    پاتے ہیں کچھ کمی سی تصویر زندگی میں کیا نقش چھوڑ آئے ہم دشت بے خودی میں زنجیر آگہی سے شمشیر آگہی تک کیا کیا مقام آئے دل کی سپہ گری میں جی دیکھنے کو ترسے دیکھوں تو کس نظر سے طوفان خیرگی ہے جلووں کی روشنی میں ہستی بجائے خود ہے اک کارگاہ ہستی ہم مست بندگی میں وہ بندہ پروری ...

    مزید پڑھیے

    کرو تلاش حد آسماں ملنے نہ ملے

    کرو تلاش حد آسماں ملنے نہ ملے نشان رہ گزر کارواں ملے نہ ملے چلو جلائے ہوئے مشعل یقیں دل میں کنار بحر محیط گماں ملے نہ ملے رواں دواں ہوں ہر اک موج خوش خرام کی سمت پس سراب وہ جوئے رواں ملے نہ ملے ابھی صدائے جرس گونجتی ہے کانوں میں سراغ قافلۂ رفتگاں ملے نہ ملے ابھی نہ دامن امید ...

    مزید پڑھیے

    دل میں وہ درد اٹھا رات کہ ہم سو نہ سکے

    دل میں وہ درد اٹھا رات کہ ہم سو نہ سکے ایسے بکھرے تھے خیالات کہ ہم سو نہ سکے تھپکیاں دیتے رہے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس قدر جل اٹھے جذبات کہ ہم سو نہ سکے آنکھیں تکتی رہیں تکتی رہیں اور تھک بھی گئیں ہائے رے پاس روایات کہ ہم سو نہ سکے یہ بھی سچ ہے کہ نہ ہشیار نہ بے دار تھے ہم یہ بھی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2