صفر
گہری نیند میں سارے عناصر بکھر گئے بچی کھچی پونجی کو سوا نیزے کا سورج چاٹ گیا مجھ سے حساب طلب کرتے ہو میں تو ایک عظیم صفر ہوں
گہری نیند میں سارے عناصر بکھر گئے بچی کھچی پونجی کو سوا نیزے کا سورج چاٹ گیا مجھ سے حساب طلب کرتے ہو میں تو ایک عظیم صفر ہوں
ذروں کے دہکتے ایواں میں دو شعلہ بجاں لرزاں سائے مصروف نزاع باہم ہیں اڑ اڑ کے غبار راہ عدم ایواں کے بند دریچوں سے ٹکرا کے بکھرتے جاتے ہیں کہرے میں پنپتی سمتوں سے نازاد ہواؤں کے جھونکے نادیدہ آہنی پردوں پر رہ رہ کے جھپٹتے رہتے ہیں اک پل دو پل کی بات نہیں ذروں کے محل کی بات نہیں ہر ...
مہ و سال کے تانے بانے کو زریں شعاعوں کی گل کاریاں میری نظروں نے بخشی ہیں آفاق کے خد و خال بہار آفریں میں مرے خوں کی سوغات شامل ہے ہر وسعت بے کراں میں مری دھڑکنیں گونجتی ہیں ہر اک لمحہ کوئی نہ کوئی بگولہ اٹھا اور مرے نقش پا کو مٹانے کی دھن میں چلا لیکن آواز پا کی گرجتی گھٹاؤں ...
میری آہٹ گونج رہی ہے دنیا کی ہر راہ گزر میں اوشا میرے نقش قدم پر خوشبو کی پچکاری لے کر رنگ چھڑکتی جاتی ہے سورج کے البیلے مغنی جنبش پا کے سرگم پر سنگیت سناتے جاتے ہیں سجی سجائی شام کی دلہن شب کی سیہ اندام ابھاگن میرے من کی نازک دھڑکن ایک ہی تال پہ لہراتی ہیں چنچل لہریں سرکش ...
دہکتے سورج کا سرخ چہرہ لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے خلا میں سیارے بکھرے بکھرے ہیں جوف افلاک پھٹ پڑا ہے پہاڑ دھنکے ہوئے فضاؤں میں تیرتے ہیں اتھاہ ساگر کف دہن سے سلگتے لاوے اگل رہے ہیں کوئی مرے منتشر عناصر کو پھر سے پہلا سا روپ دے کر کشاں کشاں لے چلا ہے گویا جھلس رہا ہے بدن مری ہڈیاں ...
شب کی چادر اوڑھ کر آئی ہے لمحوں کی مہکتی دھول میں لپٹی ہوئی میری جانب دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے اور میں اپنے بستر خاشاک و خس پر نیم وا آنکھوں سے دھندلی روشنی کو دیر سے تکتا ہوا دم بخود ہوں جھلملاتی سوچ میں کھویا ہوا وہ قریب آتی ہے میری سانس میں شعلے جگاتی ہے مری دھڑکن کی لے کو کر ...
چاند نے مسکرا کر کہا دوستو قصۂ درد چھیڑے سر راہ کون پھر بھی تارے مصر تھے کہ ہم آج کی شب سنیں گے وہی ان سنی داستاں دیر تک چاند سوچا کیا دور آفاق کی سمت دیکھا کیا اور تاروں کی آنکھیں چھلکتی رہیں رات کے دامن تر کو آہستہ آہستہ لمحوں کا ٹھنڈا لہو جذب ہو ہو کے رنگین کرتا رہا ناگہاں ایک ...
بڑی لمبی کہانی ہے سنو گے؟ سحر کی آنکھ کھلنے بھی نہ پائی تھی مرے ترکش نے لاکھوں تیر برسائے شعاعوں کے کسی نے آفتابانہ ہر اک ذرے کو چمکایا کسی نے ماہتابی چادریں ہر سمت پھیلائیں کوئی جگنو کی صورت جھلملایا انہیں بکھرے ہوئے تیروں کے زیر سایہ میں چلتا رہا ہر موڑ پہ کوئی نہ کوئی ...
ہر آئینہ اک عکس نو ڈھونڈتا ہے سمندر کی لہریں ہوں یا دشت کی ان گنت پتیاں سب یہی سوچتی ہیں کہ کوئی نئی روح ان میں سما جائے اڑتے ہوئے ابر پارے مسلسل طلوع سحر سے نمود شفق تک کوئی سمت نو ڈھونڈتے ہیں افق تا افق چاندنی رات کے دامن بے کراں میں نئی ساعتوں کے نشاں ڈھونڈھتی ہے تلاش مسلسل کی ...
اور میں چاندنی رات میں سو گیا دیکھتا کیا ہوں پھیلی ہوئی چاندنی کے کنارے کنارے کئی برق رفتار پرچھائیاں جانے کب سے تعاقب کناں سمت نا آشنا کی طرف ہیں رواں اور میں آہستہ آہستہ آگے بڑھا راہگیروں سے دامن بچاتا ہوا حد آفاق سے جب گزرنے لگا دیکھتا کیا ہوں اک بے کراں بحر ہے آسماں سے زمیں ...