میں اپنے شہر میں اپنا ہی چہرہ کھو بیٹھا
میں اپنے شہر میں اپنا ہی چہرہ کھو بیٹھا یہ واقعہ جو سنایا تو وہ بھی رو بیٹھا تمہاری آس میں آنکھوں کو میں بھگو بیٹھا کہ دل میں یاس کے کانٹے کئی چبھو بیٹھا متاع حال نہ ماضی کا کوئی سرمایہ ندی میں وقت کی ہر چیز کو ڈبو بیٹھا سنہرے وقت کی تحریریں جن میں تھیں محفوظ میں ان صحیفوں کو ...