Azhar Naiyyar

اظہر نیر

شاعر،افسانہ نگار

Poet, Storyteller

اظہر نیر کی غزل

    جی رہا ہوں میں اداسی بھری تصویر کے ساتھ

    جی رہا ہوں میں اداسی بھری تصویر کے ساتھ شور کرتا ہوں سیہ رات میں زنجیر کے ساتھ سرخ پھولوں کی گھنی چھاؤں میں چپکے چپکے مجھ سے ملتا تھا کوئی اک نئی تنویر کے ساتھ اک تری یاد کہ ہر سانس کے نزدیک رہی اک ترا درد کہ چسپاں رہا تقدیر کے ساتھ کبھی زخموں کا بھی خندۂ گل کا موسم ہم پہ کھلتا ...

    مزید پڑھیے

    حیران ہوں کہ آج یہ کیا حادثہ ہوا

    حیران ہوں کہ آج یہ کیا حادثہ ہوا ہے آگ سرد دل بھی ہے میرا بجھا ہوا منزل پہ پہلے میری رسائی ہوئی تو پھر ہر نقش پا سے آگے مرا نقش پا ہوا ریکھائیں ہاتھ کی تو سوا جاگتی رہیں اے کاش میرا بخت رہے جاگتا ہوا تھی اس کی بند مٹھی میں چٹھی دبی ہوئی جو شخص تھا ٹرین کے نیچے کٹا ہوا نیرؔ کہانی ...

    مزید پڑھیے

    حروف خالی صدف اور نصاب زخموں کے

    حروف خالی صدف اور نصاب زخموں کے ورق ورق پہ ہیں تحریر خواب زخموں کے سوال پھول سے نازک جواب زخموں کے بہت عجیب ہیں یہ انقلاب زخموں کے غریب شہر کو کچھ اور غمزدہ کرنے امیر شہر نے بھیجے خطاب زخموں کے سروں پہ تان کے رکھنا ثواب کی چادر اترنے والے ہیں اب کے عذاب زخموں کے وہ ایک شخص کہ ...

    مزید پڑھیے

    ہر ایک راہ میں امکان حادثہ ہے ابھی

    ہر ایک راہ میں امکان حادثہ ہے ابھی کہ کھو نہ جاؤں اندھیرے میں سوچنا ہے ابھی تمام عمر وہ چلتا رہا ہے صحرا میں گھنے درخت کے سائے میں جو کھڑا ہے ابھی سکون تیرے تصور سے جس کو ملتا ہے وہ تیری دید کو لیکن تڑپ رہا ہے ابھی ہر ایک شخص کے چہرے پہ خوف طاری ہے نہ جانے کون اندھیرے میں چیختا ...

    مزید پڑھیے

    اس کو کوئی غم نہیں ہے جس کا گھر پتھر کا ہے

    اس کو کوئی غم نہیں ہے جس کا گھر پتھر کا ہے کیا کرے گا تیز طوفاں بام و در پتھر کا ہے ایسے انساں سے کبھی امید کیا رکھے کوئی دیکھنے میں آدمی ہے دل مگر پتھر کا ہے کون سا ہے شہر جس میں میں بھٹک کر آ گیا راستے پتھر کے ہیں اور بام و در پتھر کا ہے آ گئے ہیں آگ کی زد میں ہزاروں جھونپڑے مجھ ...

    مزید پڑھیے

    مری دنیا اکیلی ہو رہی ہے

    مری دنیا اکیلی ہو رہی ہے تمنا گھر میں تنہا سو رہی ہے صدائیں گھٹ گئیں سینے کے اندر خموشی اپنی پتھر ہو رہی ہے تمناؤں کے سینے پر رکھے سر اداسی بال کھولے سو رہی ہے سنا ہے اپنا چہرہ زندگانی مسلسل آنسوؤں سے دھو رہی ہے یہاں سے اور وہاں تک نا امیدی ہمارے دل کا عنواں ہو رہی ہے

    مزید پڑھیے

    ہمارے چہرے پہ رنج و ملال ایسا تھا

    ہمارے چہرے پہ رنج و ملال ایسا تھا مسرتوں کا زمانے میں کال ایسا تھا فضائے شہر میں بارود کی تھی بو شامل کہ سانس لینا بھی ہم کو محال ایسا تھا امیر شہر کے ہونٹوں پہ پڑ گئے تالے غریب شہر کا چبھتا سوال ایسا تھا بہ وقت شام سمندر میں گر گیا سورج تمام دن کی تھکن سے نڈھال ایسا تھا تمام ...

    مزید پڑھیے

    سچ بولنا چاہیں بھی تو بولا نہیں جاتا

    سچ بولنا چاہیں بھی تو بولا نہیں جاتا جھوٹوں کے لئے شہر بھی چھوڑا نہیں جاتا تم کتنا ہی عہدوں سے نوازو ہمیں لیکن نفرت کا شجر ہم سے تو بویا نہیں جاتا سوچو تو جوانی کبھی واپس نہیں آتی دیکھو تو کبھی آ کے بڑھاپا نہیں جاتا دل پر تو بہت زخم زمانے کے لگے ہیں خود داری سے لیکن کبھی رویا ...

    مزید پڑھیے

    ہرے درخت کا شاخوں سے رشتہ ٹوٹ گیا

    ہرے درخت کا شاخوں سے رشتہ ٹوٹ گیا ہوا چلی تو گلابوں سے رشتہ ٹوٹ گیا کہاں ہیں اب وہ مہکتے ہوئے حسیں منظر کھلی جو آنکھ تو خوابوں سے رشتہ ٹوٹ گیا ذرا سی دیر میں بیمار غم ہوا رخصت پلک جھپکتے ہی لوگوں سے رشتہ ٹوٹ گیا گلاب تتلی دھنک روشنی کرن جگنو ہر ایک شے کا نگاہوں سے رشتہ ٹوٹ ...

    مزید پڑھیے

    میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا

    میں محل ریت کے صحرا میں بنانے بیٹھا چند الفاظ کو ماضی کے بھلانے بیٹھا حادثے سے ہی ہوا غم کا مداوا میرے فلسفہ صبر کا لوگوں کو پڑھانے بیٹھا تھک کے سائے میں ببولوں کے سکوں جب چاہا اس کا ہر پتہ مجھے کانٹے لگانے بیٹھا جس نے توڑا سبھی ناطوں سبھی رشتوں کو مرے عمر بھر کا وہی اب قرض ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2