جی رہا ہوں میں اداسی بھری تصویر کے ساتھ
جی رہا ہوں میں اداسی بھری تصویر کے ساتھ شور کرتا ہوں سیہ رات میں زنجیر کے ساتھ سرخ پھولوں کی گھنی چھاؤں میں چپکے چپکے مجھ سے ملتا تھا کوئی اک نئی تنویر کے ساتھ اک تری یاد کہ ہر سانس کے نزدیک رہی اک ترا درد کہ چسپاں رہا تقدیر کے ساتھ کبھی زخموں کا بھی خندۂ گل کا موسم ہم پہ کھلتا ...