Azhar Hashmi

اظہر ہاشمی

اظہر ہاشمی کی غزل

    شہر کو آتش رنجش کے دھواں تک دیکھوں

    شہر کو آتش رنجش کے دھواں تک دیکھوں مقتل زیست کو آخر میں کہاں تک دیکھوں پھر یہ مانوں گا خموشی پہ زوال آیا ہے دل دھڑکنے کی صدا جب میں زباں تک دیکھوں یہ تمنا ہے خدا عالم ہستی میں ترے میں عیاں دیکھنا چاہوں تو نہاں تک دیکھوں جب کہ اب رابطہ رکھنے کا بہت ہے امکاں پھر بھی ویرانیاں ...

    مزید پڑھیے

    خوابوں کا انتخاب بدلتا دکھائی دے

    خوابوں کا انتخاب بدلتا دکھائی دے کاش اب کہ اختیار سنورتا دکھائی دے صیاد کے ہنر کی ستائش نہیں ہو اب جس کو ہے پر نصیب وہ اڑتا دکھائی دے اتنی نہ انتشار کی حدت ہو روبرو انساں غم حیات میں جلتا دکھائی دے کیا وہ حساب درس میں رکھے گا کائنات جس کا یہاں وجود شکستہ دکھائی دے

    مزید پڑھیے

    یہ کم نہیں کے وہی شام کا ستارہ ہے

    یہ کم نہیں کے وہی شام کا ستارہ ہے جسے فضیلت تنہائی نے ابھارا ہے کہیں سراغ نہیں ہے کسی بھی قاتل کا لہولہان مگر شہر کا نظارہ ہے میں جا رہا ہوں مکمل وجود پانے کو مجھے بھی صورت امکاں نے اب پکارا ہے وہ ہنس کے ہر شب‌ ظلمات کاٹ دیتے ہیں وہ جن کے سینے میں افلاک کا سپارا ہے چراغ جلتا ...

    مزید پڑھیے

    تسبیح قمری سرو صنوبر سمیٹ لو

    تسبیح قمری سرو صنوبر سمیٹ لو جانا ہے اس دیار سے منظر سمیٹ لو پرواز کامیابی کی بس اتنی شرط ہے چاہت حصار نفس کے اندر سمیٹ لو اس اشک کی تڑپ کے مقابل میں کچھ نہیں اب چاہے چشم نم میں سمندر سمیٹ لو طاقت پہ پہلے اپنی تو راضی خدا کرو پھر بازوؤں میں تم در خیبر سمیٹ لو میرا مکاں نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    بس رنج کی ہے داستاں عنوان ہزاروں

    بس رنج کی ہے داستاں عنوان ہزاروں جینے کے لئے مر گئے انسان ہزاروں وہ جس نے مری روح کو درد آشنا رکھا ہیں مجھ پہ اسی زخم کے احسان ہزاروں جس خاک سے کہتے ہو وفا ہم نہیں کرتے سوئے ہیں اسی خاک میں سلطان ہزاروں اک رسم تکبر ہے سو اس دور کے انساں جیبوں میں لئے پھرتے ہیں پہچان ...

    مزید پڑھیے

    گر اقتدار سکوں اقتدار وحشت ہے

    گر اقتدار سکوں اقتدار وحشت ہے تو پھر دیار محبت دیار وحشت ہے دراز ہو رہے امکاں بھی اب عبادت کے حصار بندگی گویا حصار وحشت ہے ہر ایک شخص ہے تصویر کامراں خود میں انا کی آب ہوا میں خمار وحشت ہے دوام پائے گا اک روز حق زمانے میں یہ انتظار نہیں انتظار وحشت ہے گلوں میں حسن نہیں اور چمن ...

    مزید پڑھیے

    جو دولت ترقی رسائی بہت ہے

    جو دولت ترقی رسائی بہت ہے تو آپس میں اس سے جدائی بہت ہے اگر تجھ میں الفت سمائی بہت ہے تو سن لو یہاں ہے وفائی بہت ہے کبھی درد ماں کو نہیں دو کہ اس کی ہر ایک آہ میں گہری کھائی بہت ہے خدا کی رضا ہے نہ حاصل کسی کو خدا کے لیے پر لڑائی بہت ہے محبت لٹائی ہے اپنو پہ بے حد مگر چوٹ اپنو سے ...

    مزید پڑھیے

    گزرے ہوئے لمحات کو اب ڈھونڈ رہا ہوں

    گزرے ہوئے لمحات کو اب ڈھونڈ رہا ہوں میں اپنے مقدر میں غضب ڈھونڈ رہا ہوں سجدے کا سبب جان کے شیریں ہے پریشاں فرہاد نے کہہ ڈالا کے رب ڈھونڈ رہا ہوں وہ ہیں کہ نبھانے بھی لگے وصل کے آداب میں ہوں کہ تغافل کا سبب ڈھونڈ رہا ہوں ظالم مجھے پھر سیکڑوں غم دینے لگا ہے میں زندگی میں ایک خوشی ...

    مزید پڑھیے

    آزردہ نگاہوں پہ یہ منظر نہیں اترا

    آزردہ نگاہوں پہ یہ منظر نہیں اترا صحرائے تصور میں کوئی گھر نہیں اترا جب مل گیا عرفان نظر مجھ کو خدا سے پھر کیوں مرے احساس سے محشر نہیں اترا دیکھا نہیں جس نے مرے طوفاں کو سکوں میں وہ شخص مری روح کے اندر نہیں اترا ظالم تو بہت ہیں مگر اب ان کو مٹانے پھر کوئی ابابیل کا لشکر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    خاموش زباں سے جب تقریر نکلتی ہے

    خاموش زباں سے جب تقریر نکلتی ہے لگتا ہے کہ پیروں سے زنجیر نکلتی ہے ٹوٹا ہوا بدھنا تھا شاید کہ وضو کا ہو ایسی بھی تو پرکھوں کی جاگیر نکلتی ہے جو داغ ہے سجدے کا پیشانیٔ مومن پر اس داغ سے ہو کر ہی تقدیر نکلتی ہے ملتی ہے خوشی سب کو جیسے ہی کہیں سے بھی بھولی ہوئی بچپن کی تصویر نکلتی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2